آج کل چینی مانجھے (پتنگ کی ڈور) کیمیکل اور کانچ سے بنائے جا رہے ہیں تاکہ مانجھا تیز دھار ہو جائے اور پتنگوں کو آسانی سے کاٹ دے جو انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ ویسے چینی مانجھے پر پابندی ہے پھر بھی اس کا استعمال ہو رہا ہے اور بے زبان پرندے اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ انسان بھی اس کی زد میں آہی جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک معاملہ دہلی کے نریلا علاقے کے مرکری مارکیٹ کے ڈی ایم ایس ڈیری کے قریب چینی مانجھے میں پھنسا ہوا کبوتر درخت سے الٹا لٹکا ہوا پایا گیا۔ جو مسلسل پھڑپھڑا رہا تھا۔ کبوتر کی بے بسی دیکھ کر تھوڑی دیر میں وہاں لوگ جمع ہو گئے۔ لیکن بھیڑ میں سے کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ پرندے کی جان کیسے بچائی جائے۔ تاہم فوری طور پر فائر بریگیڈ کو فون کیا گیا۔ اس کے فورا بعد ہی فائر بریگیڈ کی گاڑی آئی اور عملہ درخت پر چڑھ گیا اور کبوتر کو بحفاظت نیچے اتارا گیا۔
کبوتر کو اتارنے کے بعد معلوم ہوا کہ چینی مانجھا کبوتر کے پروں میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور وہ شدید زخمی ہوگیا تھا۔ اس کی مرہم پٹی کر کے پڑوسی کو دے دیا گیا۔
کیجریوال پر گوتم گمبھیرکی سخت نکتہ چینی
یہ تو ایک پرندے کی مثال ہے۔ لیکن پتنگ کی ڈوریں جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔ کورونا کی وجہ سے تفریح کے لیے بچوں میں پتنگ بازی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ شام کے وقت چھتوں پر سیکڑوں بچے رہتے ہیں اور پورا آسمان پتنگوں سے بھرا نظر آتا ہے۔ پتنگ بازی کے اس بڑھتے ہوئے شوق میں چینی مانجھا کا استعمال بہت زیادہ کیا جا رہا تھا جس کے باعث دہلی حکومت نے دو برس قبل ہی پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن حکومت کی پابندی کے باوجود چینی مانجھا مارکیٹ میں اندھا دھند فروخت کیا جارہا ہے اور پرندوں اور لوگوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے فروخت پر پابندی لگانا کافی نہیں ہے جب تک کہ حکومت اس پابندی کو پوری ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ نافذ نہیں کرتی ہے تب تک عوام اور پرندوں کی جان کو خطرہ لاحق رہے گا۔