نئی دہلی: شہریت ترمیمی قانون Citizenship Amendment Act کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر 12 ستمبر کو سپریم کورٹ سماعت کرے گا۔ چیف جسٹس آف انڈیا کی زیر قیادت بینچ 12 ستمبر کو شہریت ترمیمی قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ دسمبر 2019 میں سُپریم کورٹ کے نوٹس جاری کرنے کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کی بینچ اس معاملے کی سماعت کرے گی۔ سی اے اے 10 جنوری 2020 کو نافذ ہوا ہے۔ Chief Justice of India UU Lalit
-
Supreme Court to hear on Monday, 12th September the pleas challenging the Citizenship Amendment Act (CAA) of 2019.
— ANI (@ANI) September 8, 2022 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="
A bench headed by Chief Justice of India UU Lalit to take up over 200 pleas on Monday. pic.twitter.com/GWkoNMKeoZ
">Supreme Court to hear on Monday, 12th September the pleas challenging the Citizenship Amendment Act (CAA) of 2019.
— ANI (@ANI) September 8, 2022
A bench headed by Chief Justice of India UU Lalit to take up over 200 pleas on Monday. pic.twitter.com/GWkoNMKeoZSupreme Court to hear on Monday, 12th September the pleas challenging the Citizenship Amendment Act (CAA) of 2019.
— ANI (@ANI) September 8, 2022
A bench headed by Chief Justice of India UU Lalit to take up over 200 pleas on Monday. pic.twitter.com/GWkoNMKeoZ
مئی 2020 میں سُپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون 2019 (سی اے اے) کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے بیچ پر نوٹس جاری کیا تھا۔ درخواستوں کے بیچ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس اے ایس بوپنا اور رشی کیش رائے کی بینچ نے عدالت عظمیٰ میں زیر التوا دیگر 160 درخواستوں کے ساتھ انہیں ٹیگ کیا تھا۔
18 دسمبر 2019 کو سُپریم کورٹ نے 60 عرضیوں پر مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا۔ چونکہ اس وقت تک ایکٹ کو نافذ نہیں کیا گیا تھا اس لیے درخواست گزاروں نے اس پر روک لگانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔ بعد ازاں اس ایکٹ کو 10 جنوری 2020 کو نوٹیفکیشن کے ذریعے نافذ کیا گیا۔
درخواست گزاروں نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ اسی طرح پاکستان کے احمدی، میانمار کے روہنگیا، سری لنکا کے تمل وغیرہ جیسے گروہوں کو بھی اس ایکٹ کے دائرے میں نہیں لایا گیا ہے۔ اخراج خالصتاً مذہب سے منسلک ہے اور اس لیے آرٹیکل 14 کے تحت ایک غلط درجہ بندی ہے۔
درخواست گزاروں نے مزید کہا کہ شہریت کو مذہبی شناخت سے جوڑنے سے جمہوریہ ہند کی سیکولر بنیاد متزلزل ہو جاتی ہے۔ آسام کے کچھ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایکٹ 1986 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
1985 کے آسام معاہدے کے مطابق 24 مارچ 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آسام میں داخل ہونے والے تمام افراد کو غیر قانونی مہاجر سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ آسام گروپوں کے زیر قیادت برسوں سے جاری احتجاج کے دوران کیا گیا تھا جس میں ریاست سے غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔