قومی دارالحکومت دہلی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ہندو مسلم اتحاد کے نظریے کو اپنانے پر زور دیتے ہوئے پلاننگ کمیشن کی سابق رکن ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے کہاکہ موجودہ حالات میں مولانا آزاد کے نظریہ ہندومسلم اتحاد کو اپناکر ہی ملک میں امن و امان اور خیرسگالی کے ماحول قائم کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے قومی کونسل میں مولانا آزاد پر منعقدہ ایک تقریب میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہاکہ مولانا آزاد کس طرح ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے تھے، اس کا اندازہ ان کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا 'آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑا ہوکر یہ اعلان کرے کہ سوراج 24 گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ بھارت ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں آزادی سے دستبردار ہوجاؤں گا' لیکن ہندو مسلم اتحاد نہیں چھوڑوں گا، کیوں کہ اگر ہمیں سوراج نہیں ملا تو یہ بھارت کا نقصان ہوگا، لیکن اگر ہندو مسلم اتحاد قائم نہ ہوسکا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا'۔
انہوں نے کہاکہ سنہ 1923 میں جب مولانا آزاد محض 35 برس کی عمر میں کانگریس کے صدر منتخب کیے گئے تو اس وقت بھی انہوں نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا تھا اور کہا تھاکہ ہماری آزادی کی بنیاد ہی ہندو مسلم اتحاد ہے۔
اسی طرح جب وہ دوبارہ سنہ 1940 میں کانگریس کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تو اس وقت بھی انہوں نے کہاکہ مجھے فخر ہے کہ ہماری 1300 سالہ تاریخ ہے اور مجھے یہ بھی فخر ہے کہ میں بھارتی ہوں اور کبھی اس سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ ایک ہزار سالہ ہماری مشترکہ تاریخ ہے۔
انہوں نے کہاکہ مولانا آزاد ہمیشہ مکمل آزادی کے حامی رہے اور 19/20 برس کی عمر میں مسلمانوں میں جذبہ حریت کو پھونک دیا تھا۔
اپنی چھوٹی عمر میں جہاں بھارتی جذبہ حریت کو بیرون ملک پہنچایا تھا وہیں جمال الدین افغانی اور رشید رضا مصری وغیرہ کی تحریک سے بھارتیوں کو آگاہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے نظربندی کے دوران رامائن اور بھگوت گیتا کا عربی میں ترجمہ کیا تھا تاکہ دونوں قوموں کے درمیان دوریاں کم ہوں۔