بھارت کو آزادی دلانے میں کئی لوگوں نے اہم کردار ادا کیا۔ بہار کی زمین کو انقلابی لوگوں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ ملک کو آزادی دلانے والوں میں ایک نام پیر علی خان کا بھی ہے۔
پیر علی نے انگریزوں کے ہزار ظلم برداشت کیے لیکن ان کے آگے کبھی جھکنا پسند نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کا نام بتانے سے مرنا بہتر سمجھا لیکن آج آزاد بھارت میں پیر علی خان تاریخ کے صفحات میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔
بچپن میں ہی گھر چھوڑ دیا تھا
پیر علی خان کی پیدائش سنہ 1820 میں اعظم گڑھ کے محمدپور میں ہوئی تھی۔ پٹنہ میں تعلیم کے دوران انہوں نے اردو، فارسی اور عربی سیکھی۔ اصل میں بچپن میں ہی وہ گھر سے بھاگ کر پٹنہ آ گئے تھے جہاں انہوں نے ایک کتاب کی دکان میں کام کیا۔ دھیرے دھیرے کتاب کی دکان انقلابی رہنماؤں کے اڈے میں تبدیل ہو گئی۔
بہار کو بنایا ورک گراؤنڈ
یوں تو پیر علی اترپردیش کے رہنے والے تھے لیکن انہوں نے بہار میں کام کیا۔ پہلی تحریک آزادی کے دوران برطانوی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مخالفت کے دوران بھی انگریزوں کا سامنا کرتے رہے۔ کبھی دباؤ میں نہیں آئے بلکہ ہنستے ہنستے پھانسی چڑھ گئے۔
عوام کو تحریک سے منسلک کیا
پیر علی انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے زندگی بھر لڑتے رہے۔ ملک کی آزادی کو انہوں نے اپنا مقصد بنا لیا تھا۔ دہلی کے عظیم اللہ خان کو اپنا رہبر مانتے تھے۔ سنہ 1857 کے انقلاب کے وقت پورے بہار میں گھوم گھوم کر لوگوں کے اندر جذبہ پیدا کیا۔ عوامی ذہن کو ایک کرنے میں پیر علی کا اہم کردار رہا۔
سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ حملہ کیا
پیر علی کی قیادت میں 3 جولائی 1857 کو 200 سے بھی زیادہ آزادی کے دیوانے جمع ہوئے۔
انہوں نے سینکڑوں افراد کے ساتھ مل کر پٹنہ کے گلزار باغ میں واقع حکومت کی انتظامی عمارت پر حملہ کر دیا۔ اصل میں گلزار باغ میں واقع انتظامی عمارت سے انقلابی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی تھی۔
بغاوت کے جرم میں گرفتار
دو روز بعد 5 جولائی 1857 کو پیر علی اور ان کے درجنوں ساتھیوں کو پولیس نے بغاوت کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے بعد انہیں کافی اذیت دی گئی۔ اس وقت کے پٹنہ کے کمشنر ولیم ٹیلر نے کہا کہ 'اگر آپ سب ساتھیوں کا نام بتا دیں گے تو آپ کی سزا ٹل جائے گی لیکن پیر نے انکار کر دیا۔
پیر علی کے وہ تاریخی الفاظ۔۔۔۔۔۔
پیر علی نے جواب میں کہا کہ 'زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں جب جان بچانا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ کئی ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب جان دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ وقت جان دینے کا ہے۔'