ETV Bharat / state

Muslim Singer of Ram Katha رام کتھا کا وہ مسلم گلوکار جنہیں آج بھی مقبولیت حاصل ہے - Katha Among Muslim Community

گیا ضلع کا ایک ایسا فنکار، شاعر اور رام کتھا واچک جو مسلمان ہے۔ ان کی صلاحیت، تحقیق، تصنیف اور ان کی دوسرے مذہب سے واقفیت کے سبھی بالخصوص ہندو طبقہ قدردان ہے۔ ہم بات اس مسلم کتھا واچک خالق حسین پردیسی کی کررہے ہیں جو ہندتوا کی وجہ سے نہیں بلکہ نکسلیوں کی زیادتی اور پابندی کی وجہ سے برسوں ہندی، سنسکرت اور ہندو مذہبی پروگرام سے دور رہے۔ ای ٹی وی بھارت نے خالق حسین پردیسی سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے خالق حسین پردیسی سے خصوصی گفتگو کی
ای ٹی وی بھارت نے خالق حسین پردیسی سے خصوصی گفتگو کی
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 8, 2023, 5:23 PM IST

ای ٹی وی بھارت نے خالق حسین پردیسی سے خصوصی گفتگو کی

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا ہیڈ کوارٹر سے قریب پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع کابر نام کا ایک گاؤں ہے، جہاں کے ہندی، اُردو اور مگھی زبان کے ایک معروف شاعر خالق حسین پردیسی ہیں۔ ان کی ایک بڑی پہچان اور مقبولیت شاعر اور ادیب کے ساتھ ' رام کتھا پڑھنے والے کے طور پر ہوئی ہے۔

خالق حسین پردیسی ایک ایسا مسلم شاعر اور شخصیت ہیں جو ہندوؤں کے تہواروں اور دیگر مواقع پر رام کتھا، چوپائی لکھتا اور پڑھتا ہے، خالق حسین پردیسی کہتے ہیں کہ وہ شری رام کے کردار سے متاثر ہیں اور اس وجہ سے وہ رام کتھا پڑھتے ہیں۔ خالق حسین ہندی، سنسکرت کے ساتھ اُردو اور علاقائی زبان مگھی زبان کے معروف شاعر ہیں۔ سینکڑوں اشعار، غزل، گیت وغیرہ کے خالق ہیں۔ حالانکہ اب رام کتھا پڑھنے کا ان کا یہ سلسلہ کم ہوگیا ہے لیکن ایک طویل عرصہ 1980 سے 1995 تک مہینے بھر رام کتھا پڑھنے کے لیے بطور ' ویاس ' جانے جاتے تھے۔ درمیان میں ان کا یہ سلسلہ رک گیا۔ حالانکہ ہندتوا حمایتیوں یا تعصب پرست ذہنیت والے افراد کی وجہ سے رام کتھا پڑھنے کا ان کا سلسلہ نہیں رکا بلکہ 1990 کی دہائی کے دوران ضلع میں عروج پر رہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Katha Among Muslim Community مسلم شخص نے رام کتھا کیلئے باگیشوردھام کے دھیریندر شاستری کو دعوت دی

نکسلیوں کی پابندی کے سبب گاؤں چھوڑنا پڑا

نکسلزم کی وجہ سے رام کتھا پڑھنے کا ان کا سلسلہ بند ہوا۔ سی پی آئی ماؤ وادیوں نے اُنہیں رام کتھا اور چوپائی پڑھنے پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ نکسلیوں کا کہنا تھا کہ وہ ان کے بڑھاوے اور نکسلیوں کی حمایت میں اشعار پڑھیں۔ خالق حسین پردیسی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ نکسلیوں کی پابندی کی وجہ سے نہ صرف رام کتھا پڑھنے کا سلسلہ منقطع ہوا بلکہ اُنہیں اپنے گاؤں كابر کو بھی خیر آباد کہنا پڑا ۔ سنہ 2000 کے بعد وہ اپنی پہچان کی وجہ سے دوبارہ ہندی اور سنسکرت پروگراموں میں شامل ہونے لگے اور پھر سے وہ رام کتھا پڑھنے لگے۔ آج بھی وہ مذہبی کتابوں کی روشنی میں چوپائی لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ وہ ضلع کے ایک ایسے مسلم شاعر ہیں جو گیا ہندی ساہتیہ سمیتی کے رکن ہیں ۔


رام کتھا کا مسلم گائک
ضلع گیا کے آنتی بلاک میں واقع کابر گاؤں ہے جہاں قریب پانچ سو سے زیادہ خاندانوں کے درمیان پچاس کے قریب مسلم خاندان رہتے ہیں۔ حالانکہ ان میں زیادہ تر اب گیا شہر اور دوسرے شھروں میں مقیم ہوگئے ہیں، تاہم جتنے بھی ہیں ان کے درمیان گاؤں میں آج بھی آپسی بھائی چارہ، گنگا جمنی تہذیب اور ایک دوسرے کے مذہب کے احترام کرنے کی روایت برقرار ہے۔ سنہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں یہاں مذہبی منافرت وغیرہ کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ خالق حسین پردیسی اسی گاؤں کے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے اس سفر ' رام کتھا ' پڑھنے کے تعلق سے خصوصی انٹرویو کے دوران بتایا کہ گاؤں کی مندروں میں وہ بچپن سے ہی ' کیرتن ' میں شامل ہوتے تھے۔ اس دوران وہ جھال (گانے بجانے کا ایک آلہ) بجاتے تھے۔ اسی دوران انہیں یہ شوق پیدا ہوا کہ ہم بھی کچھ پڑھتے ہیں۔ اُن کے اس شوق کو گاؤں کے ہی ایک پنڈت ' رامیشور مشرا ' نے پروان چڑھایا اور ان کی مدد کی۔ خالق حسین کو لکھنے پڑھنے کے لیے والمیکی رامائن کا ہندی ترجمہ دیا جسے انہوں نے پڑھا اور اس کے بعد رام چرت مانس، رادھے شیام رامائن پڑھا اور اس کے بعد انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ یہیں سے ان کا سفر شروع ہوا۔ انہوں نے ہندو مذہب کی کئی کتابوں کو پڑھا اور اس کی تحقیق کے بعد اشعار ' مقطق ' جسے اردو میں قطعہ کہا جاتا ہے وہ لکھنا شروع کیا ۔

ہندوؤں کو ان کا پڑھنا تھا پسند
خالق حسین پردیسی بتاتے ہیں کہ جب وہ رام کتھا وغیرہ پڑھنے لگے تو ابتداء میں انہیں گاؤں سے باہر کے لوگ تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہندو برادری کے برہمن ہیں۔ چونکہ ابتداء میں دس پندرہ لوگوں کی ایک منڈلی ہوتی تھی اور اُن کے ساتھ یہ رام کتھا پڑھنے کے لیے پہنچتے تھے۔ اس دوران پوری عقیدت اور اسی طرح کے لباس ' دھوتی کرتا، ماتھے پر تلک لگاکر ' شامل ہوتے تھے۔ اس لیے انہیں پہچان پانا مشکل تھا لیکن وہ خود اپنی پہچان بتاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ چوپائی اور کیرتن بھجن کے کئی مقابلوں میں شامل ہوئے اور انہیں انعام و اکرام سے نوازا گیا، آہستہ آہستہ بعد میں لوگوں کو پتہ چلنے لگا کہ یہ ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہیں، چونکہ یہ اپنے گاؤں کابر کی نمائندگی کرتے تھے اس وجہ سے اُنہیں کہیں کسی تعصب پرستی کا سامنا ہوتا تو ان کی ٹولی میں شامل گاؤں کے لوگ آگے آجاتے۔ اس وجہ سے اُنہیں عوامی سطح پر تفریق یا تعصب پرستی کا شکار نہیں ہونا پڑا۔ خالق حسین پردیسی کہتے ہیں کہ اگر نکسلیوں نے پابندی نہیں لگائی ہوتی تو وہ آج قومی سطح پر رام کتھا پڑھنے والے بڑے شخص ہوتے لیکن جو بھی اور جتنی بھی مقبولیت ملی وہ اس سے خوش ہیں۔

علماء کی ناراضگی کا بھی ہوا سامنا
خالق حسین پردیسی کہتے ہیں رام کتھا پڑھنے کی وجہ سے وہ کافی مقبول تو ہوئے لیکن اس دوران اپنے مسلم معاشرہ کی چند شخصیات بالخصوص کچھ علمائے کرام کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے حوصلہ نہیں کھویا بلکہ ان کے خطوط کا جواب بھی دیتے کہ وہ ہم سے مناظرہ کر لیں۔ کیونکہ ہم بھی دین اسلام کے پابند ہیں اور مذہب کے تعلق سے جانکاری ہے۔ نعت رسول اور حمد باری تعالیٰ بھی بڑی عقیدت و محبت اور اخلاص کے ساتھ لکھتے اور پڑھتے ہیں، گاؤں یا اطراف میں جہاں جس گھر میں میلاد النبیﷺ کی محفل ہوتی وہاں بھی انہیں پڑھنے اس وقت بلایا جاتا تھا۔

شری رام کے کردار سے ہیں متاثر
خالق حسین پردیسی کہتے ہیں کہ وہ شری رام کے کردار سے متاثر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شری رام کی شخصیت اور ان کے کردار پر لکھا اور پڑھا ہے، حالانکہ اس پر بھی انہیں مسلمانوں کے درمیان شروع میں ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، خالق پردیسی نے خصوصی گفتگو کے دوران شری رام پر لکھے اپنے اشعار کو بھی ترنم سے پڑھا۔ انہوں نے تہواروں کے موقع پر شرپسندوں کی جانب سے پیدا کی جانے والی کشیدگی پر کہا کہ اصل میں ایسے لوگوں کو مذہب کا علم نہیں ہے یا پھر وہ سیاست سے متاثر ہیں۔ اس وجہ سے وہ آپسی نفرت اور تعصب پر مبنی کام کرتے ہیں۔ اس لیے ہم کو ایک ہندوستانی کی حیثیت سے مل جل کر رہنے کی ضرورت ہے اور ہم برسوں پرانی روایت، ثقافت اور تہذیب کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت نے خالق حسین پردیسی سے خصوصی گفتگو کی

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا ہیڈ کوارٹر سے قریب پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع کابر نام کا ایک گاؤں ہے، جہاں کے ہندی، اُردو اور مگھی زبان کے ایک معروف شاعر خالق حسین پردیسی ہیں۔ ان کی ایک بڑی پہچان اور مقبولیت شاعر اور ادیب کے ساتھ ' رام کتھا پڑھنے والے کے طور پر ہوئی ہے۔

خالق حسین پردیسی ایک ایسا مسلم شاعر اور شخصیت ہیں جو ہندوؤں کے تہواروں اور دیگر مواقع پر رام کتھا، چوپائی لکھتا اور پڑھتا ہے، خالق حسین پردیسی کہتے ہیں کہ وہ شری رام کے کردار سے متاثر ہیں اور اس وجہ سے وہ رام کتھا پڑھتے ہیں۔ خالق حسین ہندی، سنسکرت کے ساتھ اُردو اور علاقائی زبان مگھی زبان کے معروف شاعر ہیں۔ سینکڑوں اشعار، غزل، گیت وغیرہ کے خالق ہیں۔ حالانکہ اب رام کتھا پڑھنے کا ان کا یہ سلسلہ کم ہوگیا ہے لیکن ایک طویل عرصہ 1980 سے 1995 تک مہینے بھر رام کتھا پڑھنے کے لیے بطور ' ویاس ' جانے جاتے تھے۔ درمیان میں ان کا یہ سلسلہ رک گیا۔ حالانکہ ہندتوا حمایتیوں یا تعصب پرست ذہنیت والے افراد کی وجہ سے رام کتھا پڑھنے کا ان کا سلسلہ نہیں رکا بلکہ 1990 کی دہائی کے دوران ضلع میں عروج پر رہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Katha Among Muslim Community مسلم شخص نے رام کتھا کیلئے باگیشوردھام کے دھیریندر شاستری کو دعوت دی

نکسلیوں کی پابندی کے سبب گاؤں چھوڑنا پڑا

نکسلزم کی وجہ سے رام کتھا پڑھنے کا ان کا سلسلہ بند ہوا۔ سی پی آئی ماؤ وادیوں نے اُنہیں رام کتھا اور چوپائی پڑھنے پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ نکسلیوں کا کہنا تھا کہ وہ ان کے بڑھاوے اور نکسلیوں کی حمایت میں اشعار پڑھیں۔ خالق حسین پردیسی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ نکسلیوں کی پابندی کی وجہ سے نہ صرف رام کتھا پڑھنے کا سلسلہ منقطع ہوا بلکہ اُنہیں اپنے گاؤں كابر کو بھی خیر آباد کہنا پڑا ۔ سنہ 2000 کے بعد وہ اپنی پہچان کی وجہ سے دوبارہ ہندی اور سنسکرت پروگراموں میں شامل ہونے لگے اور پھر سے وہ رام کتھا پڑھنے لگے۔ آج بھی وہ مذہبی کتابوں کی روشنی میں چوپائی لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ وہ ضلع کے ایک ایسے مسلم شاعر ہیں جو گیا ہندی ساہتیہ سمیتی کے رکن ہیں ۔


رام کتھا کا مسلم گائک
ضلع گیا کے آنتی بلاک میں واقع کابر گاؤں ہے جہاں قریب پانچ سو سے زیادہ خاندانوں کے درمیان پچاس کے قریب مسلم خاندان رہتے ہیں۔ حالانکہ ان میں زیادہ تر اب گیا شہر اور دوسرے شھروں میں مقیم ہوگئے ہیں، تاہم جتنے بھی ہیں ان کے درمیان گاؤں میں آج بھی آپسی بھائی چارہ، گنگا جمنی تہذیب اور ایک دوسرے کے مذہب کے احترام کرنے کی روایت برقرار ہے۔ سنہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں یہاں مذہبی منافرت وغیرہ کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ خالق حسین پردیسی اسی گاؤں کے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے اس سفر ' رام کتھا ' پڑھنے کے تعلق سے خصوصی انٹرویو کے دوران بتایا کہ گاؤں کی مندروں میں وہ بچپن سے ہی ' کیرتن ' میں شامل ہوتے تھے۔ اس دوران وہ جھال (گانے بجانے کا ایک آلہ) بجاتے تھے۔ اسی دوران انہیں یہ شوق پیدا ہوا کہ ہم بھی کچھ پڑھتے ہیں۔ اُن کے اس شوق کو گاؤں کے ہی ایک پنڈت ' رامیشور مشرا ' نے پروان چڑھایا اور ان کی مدد کی۔ خالق حسین کو لکھنے پڑھنے کے لیے والمیکی رامائن کا ہندی ترجمہ دیا جسے انہوں نے پڑھا اور اس کے بعد رام چرت مانس، رادھے شیام رامائن پڑھا اور اس کے بعد انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ یہیں سے ان کا سفر شروع ہوا۔ انہوں نے ہندو مذہب کی کئی کتابوں کو پڑھا اور اس کی تحقیق کے بعد اشعار ' مقطق ' جسے اردو میں قطعہ کہا جاتا ہے وہ لکھنا شروع کیا ۔

ہندوؤں کو ان کا پڑھنا تھا پسند
خالق حسین پردیسی بتاتے ہیں کہ جب وہ رام کتھا وغیرہ پڑھنے لگے تو ابتداء میں انہیں گاؤں سے باہر کے لوگ تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہندو برادری کے برہمن ہیں۔ چونکہ ابتداء میں دس پندرہ لوگوں کی ایک منڈلی ہوتی تھی اور اُن کے ساتھ یہ رام کتھا پڑھنے کے لیے پہنچتے تھے۔ اس دوران پوری عقیدت اور اسی طرح کے لباس ' دھوتی کرتا، ماتھے پر تلک لگاکر ' شامل ہوتے تھے۔ اس لیے انہیں پہچان پانا مشکل تھا لیکن وہ خود اپنی پہچان بتاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ چوپائی اور کیرتن بھجن کے کئی مقابلوں میں شامل ہوئے اور انہیں انعام و اکرام سے نوازا گیا، آہستہ آہستہ بعد میں لوگوں کو پتہ چلنے لگا کہ یہ ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہیں، چونکہ یہ اپنے گاؤں کابر کی نمائندگی کرتے تھے اس وجہ سے اُنہیں کہیں کسی تعصب پرستی کا سامنا ہوتا تو ان کی ٹولی میں شامل گاؤں کے لوگ آگے آجاتے۔ اس وجہ سے اُنہیں عوامی سطح پر تفریق یا تعصب پرستی کا شکار نہیں ہونا پڑا۔ خالق حسین پردیسی کہتے ہیں کہ اگر نکسلیوں نے پابندی نہیں لگائی ہوتی تو وہ آج قومی سطح پر رام کتھا پڑھنے والے بڑے شخص ہوتے لیکن جو بھی اور جتنی بھی مقبولیت ملی وہ اس سے خوش ہیں۔

علماء کی ناراضگی کا بھی ہوا سامنا
خالق حسین پردیسی کہتے ہیں رام کتھا پڑھنے کی وجہ سے وہ کافی مقبول تو ہوئے لیکن اس دوران اپنے مسلم معاشرہ کی چند شخصیات بالخصوص کچھ علمائے کرام کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے حوصلہ نہیں کھویا بلکہ ان کے خطوط کا جواب بھی دیتے کہ وہ ہم سے مناظرہ کر لیں۔ کیونکہ ہم بھی دین اسلام کے پابند ہیں اور مذہب کے تعلق سے جانکاری ہے۔ نعت رسول اور حمد باری تعالیٰ بھی بڑی عقیدت و محبت اور اخلاص کے ساتھ لکھتے اور پڑھتے ہیں، گاؤں یا اطراف میں جہاں جس گھر میں میلاد النبیﷺ کی محفل ہوتی وہاں بھی انہیں پڑھنے اس وقت بلایا جاتا تھا۔

شری رام کے کردار سے ہیں متاثر
خالق حسین پردیسی کہتے ہیں کہ وہ شری رام کے کردار سے متاثر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شری رام کی شخصیت اور ان کے کردار پر لکھا اور پڑھا ہے، حالانکہ اس پر بھی انہیں مسلمانوں کے درمیان شروع میں ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، خالق پردیسی نے خصوصی گفتگو کے دوران شری رام پر لکھے اپنے اشعار کو بھی ترنم سے پڑھا۔ انہوں نے تہواروں کے موقع پر شرپسندوں کی جانب سے پیدا کی جانے والی کشیدگی پر کہا کہ اصل میں ایسے لوگوں کو مذہب کا علم نہیں ہے یا پھر وہ سیاست سے متاثر ہیں۔ اس وجہ سے وہ آپسی نفرت اور تعصب پر مبنی کام کرتے ہیں۔ اس لیے ہم کو ایک ہندوستانی کی حیثیت سے مل جل کر رہنے کی ضرورت ہے اور ہم برسوں پرانی روایت، ثقافت اور تہذیب کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.