ریاست بہار میں اقلیتی اسکولوں کو حکومت کی سرپرستی تو حاصل ہے تاہم وسائل اور اخراجات میں مالی امداد دینے کی روایت حکومت نے نہیں رکھی ہے، جس کی وجہ سے اقلیتی اسکولوں میں ہونے والی تعمیراتی کام میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ان اسکولوں کے لیے سب سے زیادہ میونسپل ٹیکس کے ساتھ بجلی بل اور دوسرے ماہانہ و سالانہ اخراجات سردردی ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کا ذریعہ صرف اور صرف ٹیوشن فیس ہوتی ہے لیکن یہ رقم اتنی زیادہ نہیں ہوتی ہے کہ اس سے موٹی رقم جمع ہوجائے کیونکہ اقلیتی اسکولوں میں فیس حکومت نے طے کررکھی ہے، اتنی ہی فیس لی جاتی ہے جتنی کہ دوسرے سرکاری اسکولوں میں بچوں سے لی جاتی ہے۔ Gaya minority schools Facing Financial Crisis
دراصل اسی کی دہائی میں کرپوری ٹھاکر نے اسکولوں میں میٹرک تک غریب بچوں کے لیے مفت تعلیم کا اعلان کیا تھا وہیں اقلیتی اسکولوں کو پریشانیوں کا سامنا ہونے پر کرپوری ٹھاکر نے نئی تعلیمی پالیسی کو جاری رکھنے کا اعلان تو کیا تاہم اقلیتی اسکولوں کو یہ راحت دی کہ وہ بچوں کو مفت پڑھائیں اور اس کے بدلے میں اساتذہ کی تنخواہ حکومت ادا کرے گی۔ اس سے بچوں کو تو راحت ہے تاہم آج کے مہنگائی کے دور میں اسکولوں کو زبردست مالی خسارہ ہے۔ خاص طور پر وہ اقلیتی اسکول جو شہری علاقوں کے پرائم لوکیشن پر واقع ہیں انہی اسکولوں میں ایک اسکول شہر گیا میں واقع ہادی ہاشمی سینیئر سکنڈری اسکول ہے، جہاں دسویں جماعت کے طلبا سے صرف چار سو روپے مختلف چیزوں کے لیے فیس ہی جاتی ہے جبکہ انٹر کے بچوں سے پندرہ سو روپے لیے جاتے ہیں۔ بچوں کی فیس سے ہی معاہدے پر بحال ملازمین کو تنخواہ، صفائی ستھرائی اور مٹننس کا کام ہوتاہے۔ Gaya minority schools Facing Financial Crisis
اسکول کے پرنسپل نفاست کریم کہتے ہیں کہ اسکول کی عمارت خستہ حال ہوچکی ہے کیونکہ عمارت کو بنے ستر برس کے قریب ہوچکے ہیں حکومت کی جانب سے کوئی اضافی مدد نہیں ملتی ہے جس سے تعمیراتی کام ہوں۔ اسکول میں پڑھنے والے طلبہ کی فیس میں اضافہ کیا نہیں جاسکتا ہے حالانکہ اب یہاں طلبہ کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے۔ اسکول کو ہر سال ایک لاکھ سات ہزار روپے کا میونسپل کارپوریشن کا ٹیکس آتا ہے۔ بجلی بل بھی ہر ماہ دس بارہ ہزار روپے ہوتی ہے۔ دوسرے سرکاری اسکولوں میں بجلی بل اور ٹیکس کا پیسہ حکومت یعنی کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے ادا کیا جاتا ہے، جبکہ اقلیتی اسکولوں میں یہ نظام نہیں ہے حکومت اگر اس پر توجہ دے تو اقلیتی اسکولوں کو بڑا فائدہ ہوگا۔ Gaya minority schools Facing Financial Crisis
- یہ بھی پڑھیں؛ GDC Awantipora lacks Basic Facilities: ڈگری کالج اونتی پورہ میں بنیادی سہولیات کا فقدان، طلبہ کو مشکلات
واضح رہے کہ شہر گیا میں واقع ہادی ہاشمی اسکول سمیت چار اقلیتی اسکول ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ پرائم لوکیشن پر ہادی ہاشمی اسکول اور ہری داس سیمینری ہائی اسکول واقع ہے جبکہ قاسمی ہائی اسکول اور قاسمی مڈل اسکول، اردو گرلز اسکول شہر کے اندر محلے میں واقع ہے۔ اقلیتی اسکولوں میں متعدد مسائل کے ساتھ ٹیکس کا اضافی بوجھ بھی ہے۔Gaya minority schools Facing Financial Crisis