ریاست بہار کے گیا ضلع میں ہولی تہوار کے پیش نظر ضلع سے لیکر تھانہ تک ' امن کمیٹی ' کی میٹنگ انتظامیہ کی طرف سے ہورہی ہے تاکہ خوشگوار ماحول میں ہولی اور شب برات کا اختتام ہو، لیکن اسی ضلع میں ایک گاؤں ' نسکھا گاؤں ' ہے جہاں کے باشندے ایک آواز میں کہ رہے ہیں انکے یہاں گاؤں ہی نہیں بلکہ پنچایت میں امن کمیٹی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انکے یہاں کا ہرفرد امن ، اتحاد ، بھائی چارے کا علمبردار ہے۔ ان کی پہچان گنگا جمنی تہذیب کی منفرد مثال سے ہے۔ یہاں ہندو مسلم مل کر ہولی کا تہوار مناتے ہیں۔
رواں برس بھی ہولی کے موقع پر گیا کے نسکھا گاؤں میں ہندو اور مسلمان مل کر رنگوں کا تہوار منا رہے ہیں۔ گاؤں والوں کے مطابق ہولی کے موقع پر جب وہ گیت گاتے ہیں تو پہلے مذہبی گیت گاتے ہیں۔گاؤں کی مسلم کمیونٹی کے لوگ بھی اس گیت کو پرجوش ہوکر گاتے ہیں۔ نسکھا گاؤں ضلع کے مگدھ یونیورسیٹی تھانہ حلقہ میں ہے جہاں ہندو مسلم اتحاد کی مثال کئی نسلوں سے پیش کی جا رہی ہے، جھکٹیا پنچایت کے تحت آنے والے نسکھا گاؤں کی آبادی تقریباً پندرہ سو ہے، جس میں ہندو اور مسلم دونوں برادری کے لوگ رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ گاؤں 500 سال سے زیادہ پرانا ہے اور تب سے یہاں دونوں برادریوں کے لوگ آباد ہیں، جب بھی کوئی تہوار آتا ہے تو یہ تہوار آپس میں مل جل کر اس طرح مناتے ہیں جیسے کہ یہ انکا تہوار ہو ،مذہبی تفریق تو دور کسی برادری میں بھی کوئی تفریق نہیں ہے، یہاں مسلم اور ہندو دونوں طبقے کی مختلف برادریوں کے لوگ آباد ہیں ۔
ای ٹی وی بھارت کی ٹیم اسی اتحاد کو دیکھنے اور پرکھنے پہنچی تو دیکھا کہ گاؤں میں ایک بڑا باغیچہ ہے ، جہاں پر تیس چالیس افراد بیٹھ کر ہولی کی گیت گارہے ہیں اور انکے ساتھ گانے والوں میں ہندو مسلم دونوں شامل تھے جبکہ کچھ انکی ضیافت کی غرض سے لذیذ پکوان تیار کررہے تھے ، یہاں گاؤں میں پھگوا شروع ہوتے ہی ہولی کا خمار چڑھ جاتا ہے ، ہردن گیت اور لذیذ پکوان سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
نسکھا گاؤں ای ٹی وی بھارت کی ٹیم پہنچی تو ہندو اور مسلم برادری کے لوگوں نے ایک آواز میں کہا کہ ہم کبھی سیاست سے متاثر نہیں ہوئے، اسی لیے ہم ساتھ ہیں۔مذہبی منافرت کا آج تک ایک بھی معاملہ تھانہ تک نہیں پہنچا ، البتہ یہاں کی مثال بلاک اور تھانہ کی پولیس دوسری جگہوں کے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، اس اتحاد میں گاؤں کے چنندہ افراد کی ایک کمیٹی ہے جو تہوار خوشی غم کے موقع پر گاؤں کے لوگوں سے رابطہ کرتی ہے ان کے کاموں میں تعاون کرتی ہے اس کمیٹی کے سربراہ گاؤں کے رہائشی تنزیل الرحمان خان ہیں۔
تنزیل الرحمن خان کا گھرانہ ایک زمیندار گھرانہ اور وہ اپنے آبا واجداد کی روایت کو برقرار رکھنے میں ہمہ وقت کوشاں ہوتے ہیں ، تنزیل الرحمن خان کا کہنا ہے کہ بچپن میں انھوں نے اپنے بزرگوں سے انسانیت کا سبق سیکھا تھا اور اپنے بزرگوں کی زندگی باہمی بھائی چارے پر مبنی دیکھی تھی۔ اسی لیے آج وہ بھی اپنے بزرگوں کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بھی یہی سبق دے رہے ہیں کہ مذہب آپس میں اختلاف لڑائی جھگڑے کا درس نہیں دیتا ہے ، ہم ہولی ایک ساتھ کھیلتے ہیں یہاں کے ہندو بھی ہمارے تہواروں کو پرجوش ہوکر مناتے ہیں ۔
گاؤں کے ہی جبکہ رمیشور یادو اور نریش داس کہتے ہیں کہ شب برات اور ہولی ایک ساتھ ہے لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے چونکہ رات میں مسلم عبادت کریں گے اس لیے شام کی آذان سے پہلے ہم سڑکوں یا گھر کے باہر رنگ نہیں کھیلیں گے تاکہ گاؤں کے مسلموں کو مسجد قبرستان جانے میں کوئی دشواری نہیں ہو ، بڑے بزرگوں کی ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ مسلم طبقے کی قبرستان اور دوسرے مذہبی مقامات کے باہر رہیں تاکہ کوئی وہاں پہنچ کر شرارت نہیں کرے ہمیں انتظامیہ سے زیادہ خود پراور آپس کی میٹنگ پر اعتماد ہے یہی وجہ ہے کہ ہم آپس میں تہواروں کے موقع پر مشورہ کرتے ہیں کہ کس طرح منائیں ، کہیں کوئی بات سامنے آتی ہے تو اسکا حل ہم لوگ خود نکال لیتے ہیں ۔
واضح ہوکہ اس گاؤں کی کوئی نئی یہ روایت نہیں ہے بلکہ دونوں فرقے کے درمیان میں یہ پیار اور بھائی چارہ صدیوں قدیم ہے اور یہ گاؤں برسوں سے گنگاجمنی تہذیب کی مثال پیش کررہاہے گاؤں میں ہندو مسلمان دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر ہولی کی گیت گاتے ہیں اوررنگوں سے کھیلتے ہیں ۔
مزید پڑھیں:Holi In Mathura ہولی کھیل رہے ہجوم میں بیل کی انٹری، لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکنے کا ویڈیو وائرل