ETV Bharat / state

مسلمان رکن اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ منتخب کرنے کے بجائے قائدین پیدا کریں۔ اخترالایمان - مسلمانوں کو سیاسی استحصال روکنے کے لئے سیاسی طور پر ہی لڑنا ہوگا

مسلمان اپنے درمیان سے رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ کا انتخاب نہ کریں بلکہ لیڈر بنائیں کیوں کہ رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ پارٹی سے بندھے ہوتے ہیں جب کہ قائد آزاد ہوتا ہے۔

مسلمان رکن اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ منتخب کرنے کے بجائے قائد ین پیدا کریں۔ اخترالایمان
مسلمان رکن اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ منتخب کرنے کے بجائے قائد ین پیدا کریں۔ اخترالایمان
author img

By

Published : Aug 24, 2021, 8:12 PM IST

ملک میں مسلمانوں کی تقدیر اور تصویر بدلنے کے لئے مسلمان اپنے درمیان سے رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ کا انتخاب نہ کریں بلکہ لیڈر بنائیں کیوں کہ رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ پارٹی سے بندھے ہوتے ہیں جب کہ قائد آزاد ہوتا ہے۔ یہ بات آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کے صدر اور رکن اسمبلی اختر الایمان نے یہاں ’ہندوستان میں ذات پات پر مبنی سیاسی نظام میں کمزور طبقات کا استحصال اور اس کا حل‘ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے آج تک صرف رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ ہی منتخب کرتے آئے ہیں۔ کسی ایسے فرد کو قائد نہیں بنایا جو ان کے مسائل کو صحیح جگہ اٹھاسکیں، ان کو حل کرواسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے صرف حکومت بنانے کے لئے ووٹ دیا ہے اپنے مسائل کو حل کرانے کے لئے نہیں ووٹ دیا۔ اس لئے یہاں کی سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں سے تعلقات ووٹ لینے کی حد تک ہی رکھا۔ کیوں کہ مسلمانوں کا حکومت میں ہونا اور مسئلہ کا حل دونوں الگ بات ہے۔

انہوں نے لیڈر شپ اور قیادت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ بہار میں اگر یادو سماج کا بول بالا ہے اور ہر شعبے میں یادو نظر آتے ہیں تو اس کا سہرا لالو پرساد یادو کے سر جاتا ہے۔ کیوں کہ یادو سماج نے اپنے اندر سے قائد پیدا کیا جس نے یادو کے لئے کام کیا۔ اسی طرح کانشی رام اور محترمہ مایاوتی نے دلت سماج کو اٹھانے کا کام کیا کیوں کہ دلتوں نے انہیں اپنا قائد تسلیم کیا اور ان کی آواز پر لبیک کہا۔

اختر الایمان نے کہاکہ 'مسلمانوں کو سیاسی استحصال روکنے کے لئے سیاسی طور پر ہی لڑنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سیاسی طور پر متحد اور منظم ہونا ہوگا ورنہ مسلمان ہمیشہ کی طرح ووٹ بینک کی طرح ہی استعمال کئے جائیں گے اور پھر دودھ سے مکھی کی طرح پھینک دئے جائیں گے'۔

انہوں نے کہاکہ آزادی کے بعد بھی سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کی حصہ داری 20 فیصد سے زائد تھی لیکن آج تین چار فیصد سے زائد نہیں ہے۔ جب کہ ایس سی، ایس ٹی اور پسماندہ طبقات کی ملازمت میں بہت اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ان کے یہاں لیڈر شپ ہے۔ لیڈر شپ ہی حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اور متعلقہ پلیٹ فارم پر اواز اٹھاتی ہے۔

مزید پڑھیں:مرکز نظام الدین کی چابیاں مولانا سعد کے اہل خانہ کو سوپنے کا حکم

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے قدیم بھارت میں استحصال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک بڑا طبقہ چھوٹے طبقہ کا ہمیشہ سے غلام رہا ہے۔ مذہبی استحصال کے حوالے سے ان کی زندگی جہنم بنائی گئی تھی جب ہندوستان میں اسلام آیا تو اس نے مساوات کا درس دیا اور کچھ تبدیلی آئی لیکن یہاں اسلام بھی ذات پات کے نظام میں جکڑے سماج کی زنجیروں کو کاٹ نہ سکا۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ آج بھارتیوں میں مسلمانوں کے درمیان بھی یہی ذات پات کا نظام رائج ہے جو ہندوؤں میں ہے۔

انہوں نے بھی لیڈر شپ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ آپ کو اپنے اندر سے لیڈر شپ پیدا کرنی ہوگی کیوں کہ ایم ایل اے ایم پی آپ کا ووٹ لیکر منتخب ہو جاتے ہیں لیکن قائد آپ کے مسائل حل کرتے ہیں، آپ کے بارے میں سوچتے ہیں،۔

آل انڈیا مجلس اتَحاد المسلمین بہار یوتھ ونگ کے صدر ایڈووکیٹ عادل حسن آزاد نے کہاکہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کا آغاز آزادی کے وقت سے شروع ہوگیا تھا جب 341 میں صدارتی ایگزی ٹیو آرڈر کے ذریعہ مسلمانوں کو نکال دیا گیا تھا۔ اگر اس وقت کے ہمارے اکابرین چاہتے تو اسے روک سکتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ میں ذات پات پر مبنی مردم شماری میں مسلمانوں کی ذات پات کو شامل کرنے کے ساتھ سیمانچل کے مسائل پر بھرپور گفتگو کی گئی اور ہمارے قائد اختر الایمان نے سرجاپوری کو او بی سی میں شامل کرنے سمیت پورنیہ میں ایرپورٹ چالو کرنے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کشن گنج شاخ کے فنڈ جاری کرنے، سیمانچل کے خصوصی درجہ دینے، پورنیہ میں پٹنہ ہائی کورٹ کی بینچ قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ دیگر لوگوں کے ساتھ کوچا دھامن کے ایم ایل اے اظہار اصفی نے بھی اظہار خیال کیا۔

یو این آئی

ملک میں مسلمانوں کی تقدیر اور تصویر بدلنے کے لئے مسلمان اپنے درمیان سے رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ کا انتخاب نہ کریں بلکہ لیڈر بنائیں کیوں کہ رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ پارٹی سے بندھے ہوتے ہیں جب کہ قائد آزاد ہوتا ہے۔ یہ بات آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کے صدر اور رکن اسمبلی اختر الایمان نے یہاں ’ہندوستان میں ذات پات پر مبنی سیاسی نظام میں کمزور طبقات کا استحصال اور اس کا حل‘ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے آج تک صرف رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ ہی منتخب کرتے آئے ہیں۔ کسی ایسے فرد کو قائد نہیں بنایا جو ان کے مسائل کو صحیح جگہ اٹھاسکیں، ان کو حل کرواسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے صرف حکومت بنانے کے لئے ووٹ دیا ہے اپنے مسائل کو حل کرانے کے لئے نہیں ووٹ دیا۔ اس لئے یہاں کی سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں سے تعلقات ووٹ لینے کی حد تک ہی رکھا۔ کیوں کہ مسلمانوں کا حکومت میں ہونا اور مسئلہ کا حل دونوں الگ بات ہے۔

انہوں نے لیڈر شپ اور قیادت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ بہار میں اگر یادو سماج کا بول بالا ہے اور ہر شعبے میں یادو نظر آتے ہیں تو اس کا سہرا لالو پرساد یادو کے سر جاتا ہے۔ کیوں کہ یادو سماج نے اپنے اندر سے قائد پیدا کیا جس نے یادو کے لئے کام کیا۔ اسی طرح کانشی رام اور محترمہ مایاوتی نے دلت سماج کو اٹھانے کا کام کیا کیوں کہ دلتوں نے انہیں اپنا قائد تسلیم کیا اور ان کی آواز پر لبیک کہا۔

اختر الایمان نے کہاکہ 'مسلمانوں کو سیاسی استحصال روکنے کے لئے سیاسی طور پر ہی لڑنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سیاسی طور پر متحد اور منظم ہونا ہوگا ورنہ مسلمان ہمیشہ کی طرح ووٹ بینک کی طرح ہی استعمال کئے جائیں گے اور پھر دودھ سے مکھی کی طرح پھینک دئے جائیں گے'۔

انہوں نے کہاکہ آزادی کے بعد بھی سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کی حصہ داری 20 فیصد سے زائد تھی لیکن آج تین چار فیصد سے زائد نہیں ہے۔ جب کہ ایس سی، ایس ٹی اور پسماندہ طبقات کی ملازمت میں بہت اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ان کے یہاں لیڈر شپ ہے۔ لیڈر شپ ہی حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اور متعلقہ پلیٹ فارم پر اواز اٹھاتی ہے۔

مزید پڑھیں:مرکز نظام الدین کی چابیاں مولانا سعد کے اہل خانہ کو سوپنے کا حکم

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے قدیم بھارت میں استحصال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک بڑا طبقہ چھوٹے طبقہ کا ہمیشہ سے غلام رہا ہے۔ مذہبی استحصال کے حوالے سے ان کی زندگی جہنم بنائی گئی تھی جب ہندوستان میں اسلام آیا تو اس نے مساوات کا درس دیا اور کچھ تبدیلی آئی لیکن یہاں اسلام بھی ذات پات کے نظام میں جکڑے سماج کی زنجیروں کو کاٹ نہ سکا۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ آج بھارتیوں میں مسلمانوں کے درمیان بھی یہی ذات پات کا نظام رائج ہے جو ہندوؤں میں ہے۔

انہوں نے بھی لیڈر شپ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ آپ کو اپنے اندر سے لیڈر شپ پیدا کرنی ہوگی کیوں کہ ایم ایل اے ایم پی آپ کا ووٹ لیکر منتخب ہو جاتے ہیں لیکن قائد آپ کے مسائل حل کرتے ہیں، آپ کے بارے میں سوچتے ہیں،۔

آل انڈیا مجلس اتَحاد المسلمین بہار یوتھ ونگ کے صدر ایڈووکیٹ عادل حسن آزاد نے کہاکہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کا آغاز آزادی کے وقت سے شروع ہوگیا تھا جب 341 میں صدارتی ایگزی ٹیو آرڈر کے ذریعہ مسلمانوں کو نکال دیا گیا تھا۔ اگر اس وقت کے ہمارے اکابرین چاہتے تو اسے روک سکتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ میں ذات پات پر مبنی مردم شماری میں مسلمانوں کی ذات پات کو شامل کرنے کے ساتھ سیمانچل کے مسائل پر بھرپور گفتگو کی گئی اور ہمارے قائد اختر الایمان نے سرجاپوری کو او بی سی میں شامل کرنے سمیت پورنیہ میں ایرپورٹ چالو کرنے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کشن گنج شاخ کے فنڈ جاری کرنے، سیمانچل کے خصوصی درجہ دینے، پورنیہ میں پٹنہ ہائی کورٹ کی بینچ قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ دیگر لوگوں کے ساتھ کوچا دھامن کے ایم ایل اے اظہار اصفی نے بھی اظہار خیال کیا۔

یو این آئی

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.