ETV Bharat / state

گیا ضلع میں منور رانا اور اقتدار خان کی دوستی کی دی جاتی ہے مثال - منور رانا سومر خان دوستی کی ابتداء

Munawwar Rana۔ Akhtar Khan in Gaya۔ Friendship of Munawwar Rana۔ اردو شاعری کے ایک عظیم ستون منور رانا مرحوم کے بہار کے گیا ضلع سے گہرے تعلقات تھے، یہاں گیا کے بھدیہ کے رہنے والے اقتدار خان عرف سومر خان سے ان کی دوستی کی مثال آج بھی پیش کی جاتی ہے، ان کے انتقال پر ضلع کا بھدیہ گاؤں بھی سوگوار ہے، گیا کے بھدیہ گاؤں میں منور رانا ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک کامیاب تاجر کی حیثیت سے بھی مقبولیت رکھتے ہیں، پیش ہے خاص رپورٹ

An example is given of the friendship of Munawwar Rana and Akhtar Khan in Gaya district
An example is given of the friendship of Munawwar Rana and Akhtar Khan in Gaya district
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 16, 2024, 1:32 PM IST

گیا: اردو ادب کی معروف شخصیت منور رانا کے انتقال پرملال پر گیا ضلع کا ایک گاؤں' بھدیہ ' بھی سوگوار ہے، یہاں کا ایک خاندان گہرے رنج و غم میں ہے اور منور رانا کی رحلت پر اس خاندان کے افراد سمیت گاؤں کا ہر فرد تعزیت کا اظہار کرکے نمناک ہے۔ دراصل گیا ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب 35 کلو میٹر کے فاصلے پر بارہ چٹی تھانہ حلقہ میں جی ٹی روڈ پر واقع ایک گاؤں بھدیہ ہے، یہاں اس گاؤں سے منور رانا کے گہرے اور اچھے تعلقات تھے، اس کی وجہ منور رانا کا ایک عظیم شاعر ہونا نہیں بلکہ ان کے ذاتی کام ہیں۔ اور خاص بات یہ ہے کہ گاؤں اور اس گھرانے سے رابطہ ایک سڑک حادثے کی وجہ سے ہوا، جیسا کہ سبھی بخوبی واقف ہیں کہ منور رانا ایک ایسے شاعر تھے جن کو نہ صرف اردو ادب میں دلچسپی رکھنے والی دنیا نے بلکہ دوسری زبان و ادب کے لوگوں نے بھی اپنی پلکوں پر بٹھا کر سنا، ان کا نام اردو ادب کے فلک پر ایک ستارے کی طرح چمکتا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

معروف شاعر منور رانا نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک

منور رانا ایک کامیاب تاجر تھے

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ منور رانا ایک کامیاب تاجر بھی تھے، اُن کی تجارت ٹرانسپورٹ کی تھی اور ان کا مسلسل کولکاتا کا دورہ لگا رہتا تھا۔ چونکہ ٹرانسپورٹ کا ان کا کام اتر پردیش اور بنگال کے درمیان زیادہ تھا اس وجہ سے نیشنل ہائی وے ٹو ' جی ٹی روڈ ' پر ان کی گاڑیاں چلتی تھیں، گیا جی ٹی روڈ سے ہوکر خود ان کی آمد و رفت کا سلسلہ لگا ہوتا تھا، یہاں گیا ضلع کے بھدیہ جو کہ جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ وہاں کے ایک زمیندار اقتدار خان عرف سومر خان (مرحوم ) اور ان کے گھرانے سے ان کے گہرے تعلقات تھے، سومر خان بھی ایک بڑے ٹرانسپورٹر تھے۔ اس وجہ سے تجارتی طور پر بھی ان کے دوستانہ تعلقات کی ایک بڑی وجہ تھی، خود منور رانا اقتدار خان عرف سومر خان سے اپنے دوستانہ مراسم کا اظہار مشاعروں میں وقتاً فوقتاً کرتے تھے۔

منور رانا اور سومر خان کی دوستی کی ابتداء

منور رانا اور سومر خان کی دوستی ایک سڑک حادثے سے شروع ہوتی ہے، دراصل منور رانا کی ایک گاڑی بھدیہ جی ٹی روڈ پر سڑک حادثہ کی شکار ہو جاتی ہے۔ اس ٹرک پر چائے پتی کے کارٹون بھرے پڑے تھے، منور رانا کو اپنی گاڑی کے حادثہ کی جب اطلاع ملی تو وہ کولکاتا سے براہ راست بھدیہ پہنچے۔ جہاں پر ان کی گاڑی حادثہ کی شکار ہوئی تھی۔ لیکن جب یہاں وہ پہنچے تو وہ اس بات سے حیران تھے کہ ان کی گاڑی پر لوڈ چائے پتی کے سبھی کارٹون صحیح سلامت ہیں، اس بات سے وہ بہت حیران بھی ہوئے کیونکہ یہ معاملہ 90 کی دہائی کے قریب کا تھا۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت حادثے کے بعد دن کے اجالے میں جی ٹی روڈ پر گاڑیاں لوٹ لی جاتی تھیں لیکن حادثے کی شکار اُن کی گاڑی سے ایک سامان بھی غائب نہیں ہوا۔ اس بات سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور جب انہیں پتہ چلا کہ حادثے کی شکار ہونے کے باوجود ان کی گاڑی کے سامان صحیح سلامت کیوں ہیں؟ کیونکہ اس کی وجہ اقتدار خان عرف سومر خان اور ان کے گھرانے کے لوگ ہیں، اُنہوں نے سومر خان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور وہ اُن سے ملاقات کرنے پُہنچے، منور رانا نے گیا کے ایک مشاعرے میں اس واقعہ کو بیان کیا تھا اور اس حادثے کے تعلق سے کہتے ہیں کہ جب وہ سومر خان سے ملنے پُہنچے تو ان کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے، اقتدار خان مرحوم کا گھرانہ گیا کے معزز گھرانوں میں ایک ہے۔

ملنسار اور اچھے دوست تھے منور رانا
اقتدار خان عرف سومر خان کے بھتیجہ عزیر احمد خان اور عمیر احمد خان عرف ٹکا خان نے منور رانا کے انتقال پرملال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ہمارے سرپرست تھے، ان سے چچا کی طرح ہی ہمیں پیار ومحبت ملا اور ہمیشہ ہم لوگوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے، عمیر خان سڑک حادثے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ واقعہ 1990 کے قریب کا ہوگا، ہمارا خاندان ' وارث پاک ' دیوہ شریف سے گہری عقیدت رکھتا ہے اور ان کی گاڑیوں پر " یا وارث " لکھا ہوتا تھا۔ ' منور رانا صاحب مرحوم ' کی گاڑیوں پر بھی یا وارث لکھا ہوتا تھا، جب گاڑی حادثے کی شکار ہوئی تو اس علاقہ کے لوگوں نے بڑی حفاظت کے ساتھ گاڑی کی دیکھ بھال کی۔ جس سے منور رانا صاحب بے متاثر ہوئے اور ان کے گھرانے سے دوستی اور رابطے کی یہی وجہ تھی۔

منور رانا کی گیا سے والہانہ محبت ہوگئی تھی

منور رانا صاحب یہاں ایک عظیم شاعر اور شخصیت کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ وہ دوست کی حیثیت سے ہمیشہ آتے تھے اور یہاں کے لوگوں سے بلا روک ٹوک ملتے تھے، تہواروں اور گھر کی تقریب میں ان کا یہاں آنا ہوتا تھا، شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود انہوں نے دوستی پر کبھی اثر نہیں پڑنے دیا، وہ ایک خوش مزاج، ملنسار اور انسانی ہمدردی رکھنے والے شخص تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے چچا اقتدار خان مرحوم جن کا انتقال سنہ 2007 میں ہوا ان کی دوستی کا ذکر خود منور رانا صاحب بڑے بڑے مشاعروں میں کیا کرتے تھے، ہم نے اپنا ایک سرپرست کھویا ہے۔ اللہ مرحوم کے درجات کو بلند وبالا فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔


شانتی باغ کے دھرنے کی بھی تعریف کی تھی
سال 2019 کے آخر میں جب سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملکی سطح پر احتجاج و مظاہرے شروع ہوئے تو اسی وقت گیا شہر کے شانتی باغ میں بھی غیر معینہ دھرنا شروع ہوا، اس کی قیادت خود عمیر خان کررہے تھے جو ابھی کانگریس میں جھارکھنڈ اقلیتی شعبہ کے انچارج بھی ہیں، انہوں نے جب غیر معینہ دھرنا شروع کیا اور جب پرامن و پرسکون طریقہ سے دھرنا آگے بڑھا تو ملکی سطح پر شاہین باغ دہلی کے دھرنے کے بعد گیا کا شانتی باغ کا دھرنا سرخیوں میں رہا، منور رانا نے اس وقت بھی اپنے دوست اقتدار خان مرحوم کے بھتیجہ عمیر خان کی حوصلہ افزائی کی اور شانتی باغ کے اس دھرنے میں منور رانا کی صاحبزادی فوزیہ رانا نے بھی شریک ہوکر اپنے والد کا پیغام سنایا اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا، منور رانا سے اس گھرانے کی دوستی ان کے انتقال پر ایک بار پھر چرچا میں ہے اور خاص کر بھدیہ علاقہ بڑے بزرگوں کی طرف سے یہاں ان کی آمد پر ان کے ساتھ گزارے ہوئے ان لمحوں کو یاد کرکے خراج عقیدت پیش کی جارہی ہے۔

خاندانی تعلقات تھے
عمیر احمد خان کہتے ہیں کہ ان سے ہمارے خاندانی تعلقات تھے۔ وہ جب بھی اترپردیش سے کولکاتا جاتے ہمارے گھر میں ان کا قیام ہوتا تھا اور ہم سب ان سے دعائیں حاصل کرتے تھے، ہم سب ایک عظیم شاعر کے ساتھ اپنے ایک مشفق سرپرست اور رشتے دار سے محروم ہوگئے۔ اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ واضح ہو کہ اتوار کی رات کو معروف شاعر منور رانا نے آخری سانس لی تھی، ان کے انتقال پرملال پر ہر عام وخاص نے تعزیت کا اظہار کیا، گیا میں بھی ادبی، سماجی اور سیاسی حلقہ سوگوار ہے اور معزز شخصیات نے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔

گیا: اردو ادب کی معروف شخصیت منور رانا کے انتقال پرملال پر گیا ضلع کا ایک گاؤں' بھدیہ ' بھی سوگوار ہے، یہاں کا ایک خاندان گہرے رنج و غم میں ہے اور منور رانا کی رحلت پر اس خاندان کے افراد سمیت گاؤں کا ہر فرد تعزیت کا اظہار کرکے نمناک ہے۔ دراصل گیا ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب 35 کلو میٹر کے فاصلے پر بارہ چٹی تھانہ حلقہ میں جی ٹی روڈ پر واقع ایک گاؤں بھدیہ ہے، یہاں اس گاؤں سے منور رانا کے گہرے اور اچھے تعلقات تھے، اس کی وجہ منور رانا کا ایک عظیم شاعر ہونا نہیں بلکہ ان کے ذاتی کام ہیں۔ اور خاص بات یہ ہے کہ گاؤں اور اس گھرانے سے رابطہ ایک سڑک حادثے کی وجہ سے ہوا، جیسا کہ سبھی بخوبی واقف ہیں کہ منور رانا ایک ایسے شاعر تھے جن کو نہ صرف اردو ادب میں دلچسپی رکھنے والی دنیا نے بلکہ دوسری زبان و ادب کے لوگوں نے بھی اپنی پلکوں پر بٹھا کر سنا، ان کا نام اردو ادب کے فلک پر ایک ستارے کی طرح چمکتا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

معروف شاعر منور رانا نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک

منور رانا ایک کامیاب تاجر تھے

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ منور رانا ایک کامیاب تاجر بھی تھے، اُن کی تجارت ٹرانسپورٹ کی تھی اور ان کا مسلسل کولکاتا کا دورہ لگا رہتا تھا۔ چونکہ ٹرانسپورٹ کا ان کا کام اتر پردیش اور بنگال کے درمیان زیادہ تھا اس وجہ سے نیشنل ہائی وے ٹو ' جی ٹی روڈ ' پر ان کی گاڑیاں چلتی تھیں، گیا جی ٹی روڈ سے ہوکر خود ان کی آمد و رفت کا سلسلہ لگا ہوتا تھا، یہاں گیا ضلع کے بھدیہ جو کہ جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ وہاں کے ایک زمیندار اقتدار خان عرف سومر خان (مرحوم ) اور ان کے گھرانے سے ان کے گہرے تعلقات تھے، سومر خان بھی ایک بڑے ٹرانسپورٹر تھے۔ اس وجہ سے تجارتی طور پر بھی ان کے دوستانہ تعلقات کی ایک بڑی وجہ تھی، خود منور رانا اقتدار خان عرف سومر خان سے اپنے دوستانہ مراسم کا اظہار مشاعروں میں وقتاً فوقتاً کرتے تھے۔

منور رانا اور سومر خان کی دوستی کی ابتداء

منور رانا اور سومر خان کی دوستی ایک سڑک حادثے سے شروع ہوتی ہے، دراصل منور رانا کی ایک گاڑی بھدیہ جی ٹی روڈ پر سڑک حادثہ کی شکار ہو جاتی ہے۔ اس ٹرک پر چائے پتی کے کارٹون بھرے پڑے تھے، منور رانا کو اپنی گاڑی کے حادثہ کی جب اطلاع ملی تو وہ کولکاتا سے براہ راست بھدیہ پہنچے۔ جہاں پر ان کی گاڑی حادثہ کی شکار ہوئی تھی۔ لیکن جب یہاں وہ پہنچے تو وہ اس بات سے حیران تھے کہ ان کی گاڑی پر لوڈ چائے پتی کے سبھی کارٹون صحیح سلامت ہیں، اس بات سے وہ بہت حیران بھی ہوئے کیونکہ یہ معاملہ 90 کی دہائی کے قریب کا تھا۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت حادثے کے بعد دن کے اجالے میں جی ٹی روڈ پر گاڑیاں لوٹ لی جاتی تھیں لیکن حادثے کی شکار اُن کی گاڑی سے ایک سامان بھی غائب نہیں ہوا۔ اس بات سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور جب انہیں پتہ چلا کہ حادثے کی شکار ہونے کے باوجود ان کی گاڑی کے سامان صحیح سلامت کیوں ہیں؟ کیونکہ اس کی وجہ اقتدار خان عرف سومر خان اور ان کے گھرانے کے لوگ ہیں، اُنہوں نے سومر خان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور وہ اُن سے ملاقات کرنے پُہنچے، منور رانا نے گیا کے ایک مشاعرے میں اس واقعہ کو بیان کیا تھا اور اس حادثے کے تعلق سے کہتے ہیں کہ جب وہ سومر خان سے ملنے پُہنچے تو ان کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے، اقتدار خان مرحوم کا گھرانہ گیا کے معزز گھرانوں میں ایک ہے۔

ملنسار اور اچھے دوست تھے منور رانا
اقتدار خان عرف سومر خان کے بھتیجہ عزیر احمد خان اور عمیر احمد خان عرف ٹکا خان نے منور رانا کے انتقال پرملال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ہمارے سرپرست تھے، ان سے چچا کی طرح ہی ہمیں پیار ومحبت ملا اور ہمیشہ ہم لوگوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے، عمیر خان سڑک حادثے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ واقعہ 1990 کے قریب کا ہوگا، ہمارا خاندان ' وارث پاک ' دیوہ شریف سے گہری عقیدت رکھتا ہے اور ان کی گاڑیوں پر " یا وارث " لکھا ہوتا تھا۔ ' منور رانا صاحب مرحوم ' کی گاڑیوں پر بھی یا وارث لکھا ہوتا تھا، جب گاڑی حادثے کی شکار ہوئی تو اس علاقہ کے لوگوں نے بڑی حفاظت کے ساتھ گاڑی کی دیکھ بھال کی۔ جس سے منور رانا صاحب بے متاثر ہوئے اور ان کے گھرانے سے دوستی اور رابطے کی یہی وجہ تھی۔

منور رانا کی گیا سے والہانہ محبت ہوگئی تھی

منور رانا صاحب یہاں ایک عظیم شاعر اور شخصیت کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ وہ دوست کی حیثیت سے ہمیشہ آتے تھے اور یہاں کے لوگوں سے بلا روک ٹوک ملتے تھے، تہواروں اور گھر کی تقریب میں ان کا یہاں آنا ہوتا تھا، شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود انہوں نے دوستی پر کبھی اثر نہیں پڑنے دیا، وہ ایک خوش مزاج، ملنسار اور انسانی ہمدردی رکھنے والے شخص تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے چچا اقتدار خان مرحوم جن کا انتقال سنہ 2007 میں ہوا ان کی دوستی کا ذکر خود منور رانا صاحب بڑے بڑے مشاعروں میں کیا کرتے تھے، ہم نے اپنا ایک سرپرست کھویا ہے۔ اللہ مرحوم کے درجات کو بلند وبالا فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔


شانتی باغ کے دھرنے کی بھی تعریف کی تھی
سال 2019 کے آخر میں جب سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملکی سطح پر احتجاج و مظاہرے شروع ہوئے تو اسی وقت گیا شہر کے شانتی باغ میں بھی غیر معینہ دھرنا شروع ہوا، اس کی قیادت خود عمیر خان کررہے تھے جو ابھی کانگریس میں جھارکھنڈ اقلیتی شعبہ کے انچارج بھی ہیں، انہوں نے جب غیر معینہ دھرنا شروع کیا اور جب پرامن و پرسکون طریقہ سے دھرنا آگے بڑھا تو ملکی سطح پر شاہین باغ دہلی کے دھرنے کے بعد گیا کا شانتی باغ کا دھرنا سرخیوں میں رہا، منور رانا نے اس وقت بھی اپنے دوست اقتدار خان مرحوم کے بھتیجہ عمیر خان کی حوصلہ افزائی کی اور شانتی باغ کے اس دھرنے میں منور رانا کی صاحبزادی فوزیہ رانا نے بھی شریک ہوکر اپنے والد کا پیغام سنایا اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا، منور رانا سے اس گھرانے کی دوستی ان کے انتقال پر ایک بار پھر چرچا میں ہے اور خاص کر بھدیہ علاقہ بڑے بزرگوں کی طرف سے یہاں ان کی آمد پر ان کے ساتھ گزارے ہوئے ان لمحوں کو یاد کرکے خراج عقیدت پیش کی جارہی ہے۔

خاندانی تعلقات تھے
عمیر احمد خان کہتے ہیں کہ ان سے ہمارے خاندانی تعلقات تھے۔ وہ جب بھی اترپردیش سے کولکاتا جاتے ہمارے گھر میں ان کا قیام ہوتا تھا اور ہم سب ان سے دعائیں حاصل کرتے تھے، ہم سب ایک عظیم شاعر کے ساتھ اپنے ایک مشفق سرپرست اور رشتے دار سے محروم ہوگئے۔ اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ واضح ہو کہ اتوار کی رات کو معروف شاعر منور رانا نے آخری سانس لی تھی، ان کے انتقال پرملال پر ہر عام وخاص نے تعزیت کا اظہار کیا، گیا میں بھی ادبی، سماجی اور سیاسی حلقہ سوگوار ہے اور معزز شخصیات نے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.