ETV Bharat / state

Sopore Massacre 1993 سوپور کی اندوہناک کہانی، جب قصبہ لہولہان ہوا تھا

author img

By

Published : Jan 6, 2023, 6:19 PM IST

شمالی کشمیر کے سوپور قصبے کے لوگ درد و کرب کی لاتعداد داستانوں کے عینی شاہد ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ قصبہ متعدد ایسے مسائل کا شکار ہوا ہے جن سے چھٹکارا پانا کافی مشکل نظر آرہا ہے۔ ان کربناک کہانیوں میں 6 جنوری کا وہ سانحہ بھی ہے جب درجنوں افراد مارے گئے اور بیش قیمت الماک راکھ کے ڈھیروں میں تبدیل ہوئیں۔Sopore Massacre 1993،When 57 civilians were killed

Sopore Massacre 1993
سوپورسانحہ 1993

فیاض وانی(حیدرآباد): 6 دسمبر سنہ 1992 کا دن کشمیر کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس روز سوپور میں ایک سانحہ پیش آیا جس میں تقریباً 57 عام شہری ہلاک جبکہ 400 سے زائد رہائشی و تجارتی عمارات اور وومنز کالج سوپور راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔Civilian Killed In Sopore In 1993

دراصل سوپور میں6 جنوری کو اقبال مارکیٹ میں بی ایس ایف کی 94 بٹالین پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس دوران عسکریت پسندوں نے علاقے کی سلامتی کیلئے تعینات سرحدی حفاظتی فورس یا بی ایس ایف کے اہلکاروں سے ہیتھار بھی چھیننے کی کوشش کی۔ بی ایس ایف نے عسکریت پسندوں کو خلاف جوابی کارروئی کی اور اس دوران علاقہ میں کئی گھنٹوں تک فائرنگ کی آواز سنائی دی گئی۔Militants Attack 94 BSF in Sopore on 6 jan 1993

مقامی لوگوں کے مطابق اس حملے کی جوابی کارروائی میں 57 عام شہریوں کو گولیوں سے ہلاک کیا گیا جبکہ ایک بازار میں آگ لگائی گئی جس میں کئی افراد زندہ جل گئے۔ متاثرین کے مطابق بی ایس ایف نے ایک ایس آر ٹی سی گاڑی جو کپواڑہ سے سوپور کی طرف آر ہی تھی میں سوار مسافروں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں، جس کے نتیجے 20 مسافرین موقع پر ہی ہلاک ہوئے تھے۔SRTC Bus Set Fire In Sopore Passengers Killed

عینی شاہدین کے مطابق بی ایس ایف کے جوانوں نے اس کے بعد آس پاس کی کئی عمارتوں، دکانوں اور مکانات پر گن پاؤڈر اور پیٹرول چھڑک کر انہیں نذر آتش کر دیا۔ اس آتشزدگی کے واقعے میں شلپورہ، شاہ آباد، مسلم پیر، کرالہ ٹینگ اور آرم پورہ علاقے راکھ کی ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ آگ کی وارادت میں تقربیاً 400 سے زائد رہائشی و تجارتی عمارتیں تباہ ہوئیں۔ Fire Set On Shops And Residential Houses In 1993

کئی گھنٹوں تک علاقہ میں پُرتشدد بازار گرم رہا اور حکام نے رات گئے تک قصبہ کو فوج کے حوالے کیا۔ دوسرے روز لاشوں کو اکٹھا کیا گیا اور نشاندہی کرنے کے بعد انہیں سپرد لحد کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد کشمیر میں ایک خوف کا ماحول پیدا ہوا ۔لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیے اور اس میں ملوث بی ایس ایف بٹالین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ عوامی دباؤ کے تحت اسوقت کی گورنر انتطامیہ نے بی ایس ایف کی 94 ویں بٹالین کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا اور 9 جنوری کو واقعے کی جوڈیشیل انکوائری کے احکامات بھی صادر کیے گئے۔inquiry On Sopore Massacre 1993

30 جنوری کو اس انکوائری کے لیے جسٹس امرسنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔دو سال گزر جانے تک جسٹس امرسنگھ نے سرینگر دورہ مختلف وجوہات کی بنا پر مؤخر کیا اور گواہوں اور افسران سے اس واقعے کے متعلق بیانات قلمبند نہیں کیے جس کے بعد اس واقعہ کی تحقیقات نہیں ہوسکی اور بالآخر اس کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیا جبکہ 94 بٹالین کو سوپور سے ہٹاکر پلوامہ تبدیل کیا گیا،بعد میں اس بٹالین کو راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحہ سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کیے گئے تھے اور وہاں سے انہیں تحقیقات کے لئے سی بی آئی کو سونپا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت مخلتف انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان ہلاکتوں کی مذمت کی تھی اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔سوپور قتل عام پر ایک رپورٹ ٹائم میگزین میں بعنوان "بلڈ ٹائیڈ رائزنگ " (Blood tide rising) بھی شائع ہوئی تھی۔میگزین کے مطابق اس قتل عام میں 55 عام شہری مارے گئے تھے۔Time Magazine On Sopore massacre 1993 بتادیں کہ کشمیر میں ماہ جنوری ہر سال کئی پرتشدد یادوں کے ساتھ وارد ہوتا ہے، جس میں گاؤ کدل، مگھرمل باغ، ہندوارہ اور برسہلا (ڈوڈہ) کے قتل عام شامل ہیں۔Massacres In Kashmir

سنہ 2019 سے پہلے کشمیر میں ان واقعات کے یاد میں علیحدگی پسند رہنما اور کئی سماجی تنظیموں کی جانب سے پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا تھا اور ان واقعات میں ہلاک ہونے والے عام شہروں کے لیے انصاف کے مطالبہ کے لیے آواز اٹھائی جاتی تھی۔ تاہم سنہ 2019 میں مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے کے بعد کشمیر کے بیشتر علیحدگی پسند رہنما یا تو جیلوں میں بند ہیں یا تو انہوں نے خاموشی اختیار کی ہے۔ کشمیر میں اب علحیدگی پسند نظریہ سے لوگ اب اپنے آپ کو اس سے دوری بنانے میں ہی خیر سمجھتے ہیں کیونکہ مرکزی حکومت نے کشمیر میں ان کے خلاف نکیل کس دی ہے۔

مزید پڑھیں: گاؤ کدل سانحہ کے پیش نظر ہڑتال

آل پارٹی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق جو اس وقت تین سال سے زائد گھر میں نظر بند ہے نے سال 2019 میں ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "آج کشمیری عوام سوپور سانحہ کے ان 57 نہتے شہریوں کو یاد کررہے ہیں جنہیں بھارتی فورسز نے اندھادھند فائرنگ میں بے دردی کے ساتھ ابدی نیند سلایا۔ سانحہ میں 120 رہائشی مکانوں اور 400 دکانوں کو نذر آتش کیا گیا 26 سال گذرنے کے باوجود ان شہدا کے وارث انصاف کے متمنی ۔ آخر انصاف کون کرئیگا؟ Mirwaiz Umar Farooq Tweet On Sopore Massacre

2019 کی نظر بندی کے بعد میر واعظ نے اپنے آفیشل ٹوٹر ہینڈل پر کوئی ٹویٹ نہیں کیا ۔

جموں و کشمیر کی لیفٹننٹ گورنر انتطامیہ کا کہنا ہے کہ خطے میں عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کی مؤثر انداز میں سرکوبی کی جارہی ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھارت مخالف مہم سر نہ اٹھا سکے۔ حکومت نے علاقے میں ہڑتالی سیاست کو بھی ختم کیا ہے چناچہ علیحدگی پسند ماضی کے برعکس اب ہڑتال کی کال نہیں دے رہے ہیں۔

فیاض وانی(حیدرآباد): 6 دسمبر سنہ 1992 کا دن کشمیر کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس روز سوپور میں ایک سانحہ پیش آیا جس میں تقریباً 57 عام شہری ہلاک جبکہ 400 سے زائد رہائشی و تجارتی عمارات اور وومنز کالج سوپور راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔Civilian Killed In Sopore In 1993

دراصل سوپور میں6 جنوری کو اقبال مارکیٹ میں بی ایس ایف کی 94 بٹالین پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس دوران عسکریت پسندوں نے علاقے کی سلامتی کیلئے تعینات سرحدی حفاظتی فورس یا بی ایس ایف کے اہلکاروں سے ہیتھار بھی چھیننے کی کوشش کی۔ بی ایس ایف نے عسکریت پسندوں کو خلاف جوابی کارروئی کی اور اس دوران علاقہ میں کئی گھنٹوں تک فائرنگ کی آواز سنائی دی گئی۔Militants Attack 94 BSF in Sopore on 6 jan 1993

مقامی لوگوں کے مطابق اس حملے کی جوابی کارروائی میں 57 عام شہریوں کو گولیوں سے ہلاک کیا گیا جبکہ ایک بازار میں آگ لگائی گئی جس میں کئی افراد زندہ جل گئے۔ متاثرین کے مطابق بی ایس ایف نے ایک ایس آر ٹی سی گاڑی جو کپواڑہ سے سوپور کی طرف آر ہی تھی میں سوار مسافروں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں، جس کے نتیجے 20 مسافرین موقع پر ہی ہلاک ہوئے تھے۔SRTC Bus Set Fire In Sopore Passengers Killed

عینی شاہدین کے مطابق بی ایس ایف کے جوانوں نے اس کے بعد آس پاس کی کئی عمارتوں، دکانوں اور مکانات پر گن پاؤڈر اور پیٹرول چھڑک کر انہیں نذر آتش کر دیا۔ اس آتشزدگی کے واقعے میں شلپورہ، شاہ آباد، مسلم پیر، کرالہ ٹینگ اور آرم پورہ علاقے راکھ کی ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ آگ کی وارادت میں تقربیاً 400 سے زائد رہائشی و تجارتی عمارتیں تباہ ہوئیں۔ Fire Set On Shops And Residential Houses In 1993

کئی گھنٹوں تک علاقہ میں پُرتشدد بازار گرم رہا اور حکام نے رات گئے تک قصبہ کو فوج کے حوالے کیا۔ دوسرے روز لاشوں کو اکٹھا کیا گیا اور نشاندہی کرنے کے بعد انہیں سپرد لحد کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد کشمیر میں ایک خوف کا ماحول پیدا ہوا ۔لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیے اور اس میں ملوث بی ایس ایف بٹالین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ عوامی دباؤ کے تحت اسوقت کی گورنر انتطامیہ نے بی ایس ایف کی 94 ویں بٹالین کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا اور 9 جنوری کو واقعے کی جوڈیشیل انکوائری کے احکامات بھی صادر کیے گئے۔inquiry On Sopore Massacre 1993

30 جنوری کو اس انکوائری کے لیے جسٹس امرسنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔دو سال گزر جانے تک جسٹس امرسنگھ نے سرینگر دورہ مختلف وجوہات کی بنا پر مؤخر کیا اور گواہوں اور افسران سے اس واقعے کے متعلق بیانات قلمبند نہیں کیے جس کے بعد اس واقعہ کی تحقیقات نہیں ہوسکی اور بالآخر اس کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیا جبکہ 94 بٹالین کو سوپور سے ہٹاکر پلوامہ تبدیل کیا گیا،بعد میں اس بٹالین کو راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحہ سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کیے گئے تھے اور وہاں سے انہیں تحقیقات کے لئے سی بی آئی کو سونپا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت مخلتف انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان ہلاکتوں کی مذمت کی تھی اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔سوپور قتل عام پر ایک رپورٹ ٹائم میگزین میں بعنوان "بلڈ ٹائیڈ رائزنگ " (Blood tide rising) بھی شائع ہوئی تھی۔میگزین کے مطابق اس قتل عام میں 55 عام شہری مارے گئے تھے۔Time Magazine On Sopore massacre 1993 بتادیں کہ کشمیر میں ماہ جنوری ہر سال کئی پرتشدد یادوں کے ساتھ وارد ہوتا ہے، جس میں گاؤ کدل، مگھرمل باغ، ہندوارہ اور برسہلا (ڈوڈہ) کے قتل عام شامل ہیں۔Massacres In Kashmir

سنہ 2019 سے پہلے کشمیر میں ان واقعات کے یاد میں علیحدگی پسند رہنما اور کئی سماجی تنظیموں کی جانب سے پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا تھا اور ان واقعات میں ہلاک ہونے والے عام شہروں کے لیے انصاف کے مطالبہ کے لیے آواز اٹھائی جاتی تھی۔ تاہم سنہ 2019 میں مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے کے بعد کشمیر کے بیشتر علیحدگی پسند رہنما یا تو جیلوں میں بند ہیں یا تو انہوں نے خاموشی اختیار کی ہے۔ کشمیر میں اب علحیدگی پسند نظریہ سے لوگ اب اپنے آپ کو اس سے دوری بنانے میں ہی خیر سمجھتے ہیں کیونکہ مرکزی حکومت نے کشمیر میں ان کے خلاف نکیل کس دی ہے۔

مزید پڑھیں: گاؤ کدل سانحہ کے پیش نظر ہڑتال

آل پارٹی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق جو اس وقت تین سال سے زائد گھر میں نظر بند ہے نے سال 2019 میں ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "آج کشمیری عوام سوپور سانحہ کے ان 57 نہتے شہریوں کو یاد کررہے ہیں جنہیں بھارتی فورسز نے اندھادھند فائرنگ میں بے دردی کے ساتھ ابدی نیند سلایا۔ سانحہ میں 120 رہائشی مکانوں اور 400 دکانوں کو نذر آتش کیا گیا 26 سال گذرنے کے باوجود ان شہدا کے وارث انصاف کے متمنی ۔ آخر انصاف کون کرئیگا؟ Mirwaiz Umar Farooq Tweet On Sopore Massacre

2019 کی نظر بندی کے بعد میر واعظ نے اپنے آفیشل ٹوٹر ہینڈل پر کوئی ٹویٹ نہیں کیا ۔

جموں و کشمیر کی لیفٹننٹ گورنر انتطامیہ کا کہنا ہے کہ خطے میں عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کی مؤثر انداز میں سرکوبی کی جارہی ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھارت مخالف مہم سر نہ اٹھا سکے۔ حکومت نے علاقے میں ہڑتالی سیاست کو بھی ختم کیا ہے چناچہ علیحدگی پسند ماضی کے برعکس اب ہڑتال کی کال نہیں دے رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.