جموں کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن سے سماج کے کئی پسماندہ اور غریب طبقات کی زندگی پر اس کے برے اثرات صاف منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔
ضلع بانڈی پورہ کے سمبل سوناواری میں دریائے جہلم کے کناروں پر آباد سینکڑوں ایسے ماہی گیر ہیں جو اس لاک ڈاؤن سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، کشتیوں میں زندگی بسر کرنے والے ان ماہی گیروں کا چولہا تبھی گرم رہتا ہے جب وہ مچھلیاںپکڑ کر انہیں بازار میں فروخت کرتے تھے، تاہم لاک ڈائون نے بہار کے موسم میں ہی انکی زندگی میں خزاں جیسی مایوسی بکھیر دی ہے۔
سوناواری کے مختلف دیہات میں دریائے جہلم پر آباد یہ ماہی گیر جاری لاک ڈاؤن سے کافی پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ ’’مچھلیاں تو پکڑتے ہیں لیکن خریدار ہی نہیں ہیں تو ان کا کیا کریں؟ فاروق گورو نامی ایک ماہی گیر نے سوالیہ انداز میں ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا۔
دریائے جہلم کے کنارے آباد یہ ماہی گیر دریا میں ہی اپنے چولہے جلانے کے لئے لکڑی تلاش کرتے ہیں اور پھر اسے سکھا کر استعمال میں لاتے ہیں مگر غربت اور کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ اب یہ ماہی گیر پھینکے ہوئے پھل دریا سے نکال کر اپنے بچوں کو کھلا رہے ہیں۔
ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ماہی کئی ایسے ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ ان کے مسائل اور مشکلات تو پہلے سے بہت زیادہ تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ مزید تنگدستی کے شکار ہوگئے ہیں۔
ماہی گیر عموماً مسائل اور مشکلات میں گھرے رہتے تھے تاہم لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ مزید تنگدستی کے شکار ہوگئے ہیں، اور پوری عالم انسانیت کے ساتھ ساتھ کشمیر کے ماہی گیر بھی کوروناوبا کے جلد خاتمے کے لیے دعا گو ہیں تاکہ انہیں مفلسی کے سبب کسی بشر کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر ملک کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی سخت لاک ڈاون جاری ہے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے اگرچہ لاک ڈاؤن پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے تاہم اس سے پیدا شدہ صورتحال کو بھی ابتر ہونے سے روکنا لازمی ہے۔
دریں اثناء اکثر ماہی گیروں کا انتظامیہ اور دیگر غیر سرکاری اداروں سے مطالبہ ہے کہ انکی اِن مشکل اوقات میں امداد کی جائے تاکہ ان کے ہاں فاقہ کشی کے نوبت نہ آئے۔