اننت ناگ: چھٹی سنگھ پورہ واقعہ کے آج بائیس برس مکمل ہوگئے۔ برسی کے سلسلہ میں مقامی سکھوں کی جانب سے آج چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں قائم گردوارہ میں کیرتن کا اہتمام کیا جائے گا۔
اس دوران متاثرین اپنے بچھڑے عزیزوں کو یاد کریں گے اور ان کی روح کی شانتی کے لئے خاص دعائیں کی جائیں گی۔ اس موقع پر خاص لنگر کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 21 مارچ سنہ 2000 میں نا معلوم وردی پوش چند مسلح افراد نے ضلع اننت ناگ کے چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کو جمع ہونے کی ہدایت دی جس دوران ان پر اندھادھند فائرنگ کرکے پینتیس سکھوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔
یہ سانحہ اس وقت پیش آیا تھا جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھارت کے دورے پر آئے تھے۔
اگرچہ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری مسلح شورش کے دوران مبینہ اجتماعی قتل کے کئی واقعات انجام دئے گیے، تاہم چھٹی سنگھ پورہ کا وہ واقعہ مسلح شورش کا ایک سیاہ ترین باب تھا۔ وہ ایک ایسا انسانیت سوز اور دل دہلانے والا واقعہ تھا جس کے صدمے سے متاثرین ابھی بھی باہر نہیں آ رہے ہیں۔
دراصل 21 اور 20 مارچ سنہ 2000 میں نامعلوم وردی پوش چند مسلح افراد نے ضلع اننت ناگ کے چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کو جمع ہونے کی ہدایت دی۔ اس کے بعد ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے 35 سکھوں کا بے دردانہ قتل کیا۔
مزید پڑھیں:
- ٹرمپ کا دوۂ بھارت: چھٹی سنگھ پورہ واقعہ کی یاد تازہ کیوں ہوئی؟
- چھٹی سنگھ پورہ واقعہ: بیس برس بعد بھی متاثرین انصاف کے منتظر
حالانکہ کسی بھی عسکریت پسند تنظیم نے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ تاہم اس سانحہ کے پانچ روز بعد ہی فوج نے ضلع اننت ناگ کے پتھری بل علاقہ میں پانچ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ جنہیں چھٹی سنگھ سانحہ میں ملوث بتایا گیا تھا، لیکن بعد میں وہ عام شہری ثابت ہوئے۔
وہیں علیحدگی پسند رہنماؤں نے اس واقعہ کو افسوس ناک قرار دے کر عالمی برادری کو ایسے سانحات کی تحقیقات اور ان میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ یہ واقعہ کشمیریوں کو بدنام کرنے کی ایک سازش کے تحت انجام دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:
حکومت کی جانب سے اس قتل عام کی تحقیقات کے سلسلہ میں کئی حکم نامے بھی صادر کئے گئے۔ تاہم زمینی سطح پر اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ جس کی وجہ سے شک و شبہات کی گنجائش پیدا ہوگئی اور متاثرین کئی طرح کے خدشات سے دوچار ہو گئے۔
بائیس سال گزر جانے کے بعد بھی متاثرین کی امیدیں ٹوٹی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو تب تک سکون نہیں ملے گا جب تک ان قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا نہ جائے گا۔
یہ قتل عام اس وقت انجام دیا گیا جب اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن بھارت کے دورے پر آئے تھے۔
اپنے عزیز و اقارب سے بچھڑے بائیس برس کے لمبے عرصے کے بیچ متاثرہ بچے جوان ہو گئے اور جوان بوڑھے ہو گئے ہیں۔ تاہم امید کا دامن تھامے یہ لوگ ابھی بھی انصاف کے منتظر ہیں۔