جموں و کشمیر کی معیشت کو فروغ دینے میں یہاں کے میوہ کاشتکاروں کا ایک اہم کردار ہے۔ تاہم حکومت کے غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے کسان ہمیشہ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔
یہاں کا کسان یا تو نامساعد حالات کا شکار ہو جاتا ہے یا قدرتی آفت کی زد میں آکر پست ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان قرض کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے۔
گذشتہ چند روز کے دوران وادی کے مختلف علاقوں خاص کر شوپیاں، کولگام اور اننت ناگ کے مختلف دیہات میں شدید ژالہ باری ہوئی۔ اس کی وجہ سے میوہ کاشتکاروں کو کافی نقصان ہوا۔ ژالہ باری کے سبب میوہ درختوں پر موجود کچی فصل کو شدید نقصان پہنچا۔ اکثر مقامات پر ژالہ باری کی شدت اتنی تھی کہ درختوں سے کچے پھل اور پتے بھی گر گئے۔
یہاں کا کسان مسلسل کئی برسوں سے نامساعد حالات سے جوجھ رہا ہے۔ سنہ 2016 میں عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدہ شدہ صورتحال کے دوران ہارٹیکلچر کا شعبہ کافی متاثر ہوا تھا۔
سنہ 2018 میں غیر متوقع اور قبل از وقت بھاری برف باری سے میوہ باغات کو کافی نقصان ہوا تھا۔ سنہ 2019 میں دفعہ 370 اور 35 اے کی تنسیخ کے بعد کی حالت سے میوہ صنعت کو کافی دھچکہ لگا تھا۔ سنہ 2020 میں عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے میوہ صنعت سے جڑی سر گرمیوں میں رکاوٹیں حائل ہوئیں۔
وہیں، غیر معیاری ادویات کے سبب اسکیب کی بیماری نے باغات کو اپنی زد میں لے کر میوہ کاشتکاروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ رواں برس یعنی سنہ 2021 میں موسم کے سخت تیور اور ژالہ باری نے میوہ کاشتکاروں کی نیند حرام کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سوچھ بھارت: حقیقت یا تشہیری مہم؟
کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ زمینی یا آسمانی حالات کے غلام ہیں۔ انہیں کبھی نامسائد حالات یا تو ناگہانی آفات کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست کے خزانے کی اہم شراکت داری ہونے کے باوجود انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور کسی بھی نقصان کے بعد انہیں قدرت کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے کراپ انشورنس اسکیم متعارف کرنے کی مانگ کی جا رہی ہے۔ تاہم حکومت اس سلسلہ میں ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے سرکار سے کراپ انشورنس اسکیم متعارف کرنے کا پُر زور مطالبہ کیا۔