جموں کشمیر کی معیشت مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میوہ صنعت پر منحصر ہے اور یہاں کی 80 فیصد آبادی اس پیشے سے وابستہ ہے، جن میں سے زیادہ تعداد چھوٹے کسانوں اور میوہ کاشتکاروں کی ہے۔ اس کے باوجود بدقسمتی سے پورے جموں کشمیر میں کسان موسمیاتی تبدیلیوں، ناگہانی آفات، نامساعد حالات، مارکیٹ کی تنگی، ناقص حکومتی پالیسیوں اور مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔Farmers worried about environmental change
ماضی میں وادی کشمیر کے میوہ کاشتکار، قبل از وقت برفباری، ژالہ باری،سیلاب نامساعد حالات کا شکار ہونے سے مالی اعتبار سے کمزور ہوئے ہیں۔ وہیں 2022 بھی یہاں کے کسانوں کو خوش نہیں کر سکا، ملک کی مختلف منڈیوں میں سیبوں کی قیمتوں میں غیر معمولی گراوٹ نے یہاں کے کسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، جس سے یہاں کے کسان خاص کر میوہ کاشتکار بد تر مالی حالات سے گزر رہے ہیں۔
کسانوں کی مالی حالت خراب ہونے سے بازاروں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، بازاروں میں خریداری کی شرح میں کافی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے، جس سے دکاندار ،چھوٹے بڑے تجارت پیشہ افراد بھی کافی پریشان ہیں، سیب کی قیمتوں میں گراوٹ سے یہاں کے ہر مارکیٹ میں خریداری کی کمی نمایاں ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہاں کا ہر طبقہ زمینداروں پر منحصر ہے، لہذا کسانوں کی مالی خوشحالی سماج کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ لوگ پیسے بچانے کی خاطر دکانوں کے بجائے ریوڑھی والوں سے سستی چیزیں خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے دکانداروں کو نقصان ہو رہا ہے،
وہیں فاسٹ فوڈ اور مچھلیاں فروخت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ لوگ صرف روز مرہ کی زندگی میں درکار اشیاء ضروری خریدتے ہیں جبکہ اضافی خرچہ کی بچت کرتے ہیں، جس سے ان کا کام کافی متاثر ہے، ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے مقابلہ میں اب خریداری کافی کم ہو رہی ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسی پالیسیاں اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جن کے ذریعے کسانوں کو ریلیف ملے تاکہ زراعت کا شعبہ خود انحصاری اور ماحول دوست زرعی پیداوار کو یقینی بنا سکے کیونکہ زراعت کے بغیر نہ توصنعتوں کا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ سماج ترقی و خوشحالی پر گامزن ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:Chief Agriculture Officer کشتواڑ میں زعفران کی پیداوار میں کمی سے کسان پریشان