سری نگر: وادی کشمیر کے رہائشیوں میں یرقان کے پھیلنے اور راجوری گاؤں میں 17 اموات کے پیش نظر جموں و کشمیر حکومت نے لوگوں سے کہا ہے کہ چشمے کا پانی بیکٹیریا سے آلودہ پایا گیا ہے، لہٰذا اسے پینا بند کر دیں۔
حکومت کے جل شکتی محکمے نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع اور گرمائی دارالحکومت سری نگر میں 40 چشموں کی جانچ کی جہاں ان کے پانی میں بیکٹیریا پایا گیا۔ اس جانچ نے حکومت کو چوکنا کر دیا ہے۔ عمر حکومت نے لوگوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایسے پانی کو مناسب طریقے سے دیر تک ابالنے کے بعد ہی استعمال کریں اور بہتر ہوگا کہ صرف نل کا پانی استعمال کریں۔
محکمہ جل شکتی کے ایگزیکٹو انجینئر سمیع اللہ بیگ نے کہا کہ "جل شکتی (پی ایچ ای) دیہی واٹر سپلائی ڈویژن گاندربل/سرینگر نے گاندربل ضلع میں مختلف چشموں کے بے ترتیب نمونوں کی جانچ کی ایک بڑی مہم چلائی۔ اس دوران جمع کیے گئے 40 نمونوں میں سے 37 میں بیکٹیریا پائے گئے۔"
محکمہ نے لوگوں کو ایک انتباہی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ چشمے کے پانی کا استعمال بند کر دیں جو انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں ہے۔
بیگ نے مزید کہا کہ "گاندربل اور دیہی سرینگر کے جو لوگ پینے کے مقاصد کے لیے چشمے کے پانی کا استعمال کرتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ وہ پینے کے اسے استعمال کرنے سے گریز کریں اور اگلی ہدایات تک صرف نل کا پانی استعمال کریں۔" انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ چشمے کے پانی کو دیر تک ابالنے کے بعد ہی استعمال کریں۔
واضح رہے کہ حال ہی میں وادی کے اننت ناگ ضلع کے گٹلی گنڈ گاؤں میں 27 افراد یرقان کا شکار ہوگئے ان میں زیادہ تر بچے تھے۔ حکام نے یرقان کے پھیلنے کے لیے مقامی لوگوں کی طرف سے آلودہ پانی کے استعمال کا شبہ ظاہر کیا۔
حکومت نے اس کی بڑے پیمانے پر جانچ کے لیے ماہرین کی ایک پانچ رکنی ٹیم تشکیل دی۔ "ٹیم کو آلودگی کے ممکنہ ذریعہ کی نشاندہی کرنے، احتیاطی تدابیر نافذ کرنے، اور ضروری طبی خدمات فراہم کرنے اور اس مہینے کے آخر تک جی ایم سی اننت ناگ کے پرنسپل کو ایک ایکشن پلان پیش کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔"
جموں و کشمیر کے لوگ نل کے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کھلے ذرائع جیسے ندیوں اور چشموں کا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ جل شکتی محکمے کا دعویٰ ہے کہ اس نے 81 فیصد آبادی کو کنکشن کے ذریعے نل کا پانی فراہم کر دیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں اور جنوری کے پہلے ہفتے میں جموں خطہ کے راجوری ضلع کے بڈھال گاؤں میں 17 افراد کی موت ہو گئی، جس نے حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ حکام نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ اموات خوراک اور پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوئیں جن میں آرگن فاسفورس مواد موجود تھا۔
راجوری میں پراسرار اموات: 300 مکین قرنطینہ میں، مویشیوں کی دیکھ بھال بڑی تشویش
تاہم، حکومت کو ابھی تک راجوری کے دور دراز اور پہاڑی گاؤں میں بیماری اور اموات کی اصل وجہ کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ مزید اموات اور بیماری کو روکنے کے لیے حکومت نے اسے کنٹینمنٹ زون قرار دے دیا ہے اور گاؤں والوں کی حفاظت کے لیے کئی طبی اقدامات کیے ہیں۔