حیدرآباد: بھارتی ٹیم نے جمعرات کو ورلڈ کپ 2023 کے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو 70 رنز سے شکست دے کر فائنل میں پہنچ چکی ہے۔ اس میچ میں ویراٹ کوہلی کی 50 ویں ون ڈے سنچری اور شریس ائیر کی سنچری کافی اہم تھی۔ لیکن محمد شامی کو میچ میں سات وکٹ لینے کی وجہ سے میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ اپنے شاگرد کی شاندار کارکردگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمد شامی کے کوچ بدرالدین صدیقی نے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ٹورنامنٹ میں اب تک تمام توجہ گیندباوں نے حاصل کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران محمد شامی کے ہیڈ کوچ بدرالدین صدیقی نے کہا کہ ٹورنامنٹ کی تاریخ میں پہلے بھارتی بلے بازوں کے چرچے ہوا کرتے تھے، تاہم اس دفعہ گیند بازوں کے بارے میں کافی بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ میں ٹیم انڈیا کی فتوحات کی اکرپٹ میں محمد شامی کے کردار سے بہت زیادہ خوش ہوں۔ محمد شامی نے ورلڈ کپ میں اب تک چھ میچوں میں 9.13 کی اوسط سے 23 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔
بدرالدین صدیقی نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ٹیم کمبی نیشن کی وجہ سے پلیئنگ الیون کا حصہ نہیں تھے۔ لیکن آل راؤنڈر ہاردک پانڈیا کی چوٹ نے شامی کو پلیئنگ الیون میں جگہ دینے کا راستہ ہموار کر دیا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام گیند بازوں کو ایک ساتھ نہیں کھیلایا جا سکتا، اسی لیے محمد شامی کو ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچوں میں بنچ پر بیٹھنا پڑا تھا اور جب انہیں پلیئنگ الیون میں شامل کیا گیا تو تیز گیند باز نے میدان میں اپنا 100 فیصد دیا اور اب کوئی بھی شامی کو بینچ لگانے کے آپشن پر غور نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے تیز رفتار تینوں گیندباز جسپریت بمراہ، محمد شامی اور محمد سراج ٹورنامنٹ میں کافی موثر رہے ہیں۔ ان تینوں نے ورلڈ کپ 2023 میں اب تک 54 وکٹیں لے چکے ہیں۔ بھارتی کرکٹ میں بلے بازوں کا ہمیشہ چرچا رہتا تھا۔ تاہم یہ پہلا ورلڈ کپ ہے جہاں گیند بازوں نے اس بار اپنی شاندار کارکردگی سے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ بھارتی بلے بازوں کو کبھی بھی 350 رنز کے ہدف کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ باؤلرز نے مخالف بلے بازوں کو اتنے رنز بنانے نہیں دیے۔
صدیقی نے بھارتی باؤلنگ یونٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ قومی ٹیم نے دو پیسرز اور تین اسپنرز کے ساتھ کھیلنے کے بجائے تین تیز گیند بازوں اور دو اسپنرز پر مشتمل باؤلنگ اٹیک کو کھیلانا بہتر سمجھا ہے جو کہ بھارتی پچوں پر انڈین ٹیم کے سوچ کی ایک تبدیلی ہے۔ اس سے پہلے بھارت میں کھیلے جانے والے میچوں کے لئے دو تیز گیند بازوں اور تین اسپنروں کو ٹیم شامل کیا جاتا تھا۔ تاہم اب حالات بدل چکے ہیں اور ٹیم اب تین پیسرز اور دو اسپنرز کے ساتھ کھیلنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ یہ بھارت کے لیے مثبت اشارے ہیں۔ بھارتی ٹیم آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران جدوجہد کرتی ہوئی نظر آتی تھی لیکن اب جب بھی وہ غیر ملکی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو بھارت متاثر کن کارکردگی پیش کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں