ٹیسٹ کپتان پیٹ کمنز سلیکشن کمیٹی کا حصہ نہیں ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ خواجہ اس وقت اپنے کھیل پر مکمل کنٹرول رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم سڈنی ٹیسٹ میں اپنی دوسری سنچری بنانے کے بعد خواجہ نے کہا تھا کہ Usman Khawaja Century in Ashes Test وہ اگلے ٹیسٹ میچ میں ٹیم سے باہر ہو سکتے ہیں۔ کورونا سے متاثر ہونے کے بعد گابا ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے ٹریوس ہیڈ سڈنی ٹسٹ نہیں کھیل سکے اور خواجہ نے ان کی جگہ لی تھی۔
سلیکٹرز کے پاس واحد متبادل رہ گیا ہے کہ وہ مارکس ہیرس کو ڈراپ کرکے خواجہ کو بطور سلامی بلے باز ٹیم میں شامل کریں۔
ہیرس نے اس سیریز میں 29.83 کی اوسط سے 179 رنز بنائے ہیں جس میں میلبورن میں سخت حالات میں نصف سنچری بھی شامل ہے۔ تاہم وہ سڈنی کی دونوں اننگز میں اچھے آغاز کو بڑے اسکور میں تبدیل نہ کر سکے۔
پیٹ کمنز نے کہا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں سلیکٹر نہیں ہوں لیکن جب کوئی واپس آتا ہے اور دو سنچریاں بناتا ہے تو اسے اگلے ہفتے باہر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے،
کمنز نے کاہ کہ ہم اگلے چند دنوں میں سلیکٹرز سے اس پر بات کریں گے۔ سلیکٹرز بھی آئندہ کچھ روز میں اس پر بات کریں گے لیکن جب کوئی شاندار فارم میں کھیل رہا ہو، اس کے پاس عثمان خواجہ جیسے تجربہ کار کھلاڑی ہو تو وہ شاندار طریقہ سے کھیلتا ہے۔
خواجہ نے گزشتہ تین سال میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں صرف تین مواقع پر اور اپنے کریئر کے کل 166 میچوں میں سے 24 میچوں میں اننگز کا آغاز کیا۔ بطور اوپنر ٹیسٹ کرکٹ میں ان کے نام دو سنچریاں ہیں۔
آسٹریلیا کے ایشیز اسکواڈ میں خواجہ کو بطور اضافی بلے باز شامل کرنے کی ایک بڑی وجہ ان کی بہترین صلاحیت تھی۔ اگر ڈیوڈ وارنر کی ٹوٹی ہوئی پسلیاں انہیں کھیلنے کی اجازت نہ دیتیں تو خواجہ ایڈیلیڈ میں ان کی جگہ لے لیتے۔
پیٹ کمنز نے کہا کہ ایسا لگا کہ وہ نمبر ایک سے نمبر چھ تک کسی بھی بلے باز کی جگہ لے سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ایشیا میں ماضی میں ان کے کھیل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے لیکن آپ دیکھیں کہ وہ اس وقت کس طرح اسپن کھیل رہے ہیں۔ وہ ریورس سوئپ کھیل رہے ہیں،۔ وہ اپنے کھیل پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں اسی لیے آپ کو یہ تجربہ پسند آتا ہے۔
آخری ٹیسٹ کے لیے تیز گیندبازی حملہ میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے ۔ جے رچرڈسن اور مائیکل نیسر مقابلے میں ہیں لیکن ہوبارٹ میں آسٹریلیا جس بھی الیون کے ساتھ جائے گی وہ انگلینڈ کے لوور آرڈر کو آؤٹ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد کلین سویپ کا ہدف نہیں رکھیں گے۔
یہ لگاتار دوسرا سال ہے کہ آسٹریلیائی ٹیم سڈنی میں مضبوط پوزیشن میں ہونے کے باوجود جیت درج نہیں کر سکی ہے لیکن کمنز کا خیال تھا کہ ان کا حساب درست تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں فی اوور میں تقریباً ساڑھے تین رنز چاہتا تھا حالانکہ پچ اس وقت بھی زیادہ پریشان نہیں کررہی تھی میں نے سوچا کہ اگر انہوں نے اچھی بیٹنگ کی تو 350 کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 110 اوورز کافی تھے لیکن ہمارے ذہن میں تھا کہ یہ تھوڑا مشکل ہوسکتا ہے، اس سال ہم نے پچھلے سال کے مقابلے میں کچھ بہتری کی ہے۔