پچیس برس کے بابر کو حال ہی پاکستان کے ون ڈے ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ وہ میدان پر پرسکون رہیں گے اور سابق کپتان عمران کے انداز کو اپنائیں گے۔
بابر نے کہا کہ جب آپ کپتانی کر رہے ہو تو آپ کو پرسکون اور دماغ سے کام کرنا ہوتا ہے اور ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔آپ کو صبر و تحمل برقرار رہنے کی ضرورت ہے، یہاں تک کہ اگر اندر سے آپ پریشان ہیں لیکن آپ کو متوازن ہوکر رہنا پڑتا ہے۔
ون ڈے کپتان نے کہا کہ میں نے یہ انڈر -19 کرکٹ کے دوران سیکھا۔میدان پر آپ کو اپنا جارحانہ انداز بھلاتے ہوئے کھلاڑیوں کا اعتماد بڑھانا ہوتا ہے۔اگر آپ اپنے کھلاڑی کے ساتھ 110 فیصد کھڑے ہیں تو وہ اچھی کارکردگی کرتے ہیں۔’’میں کپتان کی حیثیت سے عمران کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں۔‘‘
بابر نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے مجھے ون ڈے کپتان کے طور پر منتخب کیا اس کے لئے میں اپنے بورڈ کا شکر گزار ہوں۔میں نے انڈر -19 اور ٹی -20 میں بھی کپتانی کی ہے۔جب میں ٹیم کی رینکنگ دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں رینکنگ میں اوپر جانا ہے ۔ میرا کام ٹیم کی درجہ بندی کو سرفہرست تین میں شامل کرنا ہے۔
کپتانی کے ساتھ ساتھ بلے بازی کرنا کتنا چیلنج والا ہو گا ، اس پر بابر نے کہا کہ میں چیلنجوں کو پسند کرتا ہوں۔کپتانی اور بلے بازی ساتھ کرنا تھوڑا سا مختلف ہے۔جب آپ بلے بازی کرتے ہو تو آپ کی توجہ کپتانی کی جگہ بلے بازی پر مرکوز رہتی ہے۔جب آپ بلے بازی کر چکتے ہیں اس کے بعد اپنی ٹیم کی کارکردگی پر غور کرتے ہیں۔
ون ڈے کپتان نے کہا ک میرا مقصد کپتان کی حیثیت سے بھی پہلے کی طرح کھیلنا ہے۔شاید آسٹریلیا کے ساتھ ٹی -20 سیریز ویسی نہیں رہی جیسا ہم نے سوچا تھا لیکن حال ہی میں ہم نے بنگلہ دیش کے ساتھ ٹی -20 سیریز جیتی تھی اور اس سے ہمارا اعتماد بڑھا ہوا ہے۔امید کرتا ہوں کہ میں ایسا کارکردگی کروں گا جس سے ٹیم جیت کے راستے پر رہے اور ٹیم کا اعتماد بنا رہے۔کپتانی سے میری بیٹنگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔پی سی بی نے ابھی تک ٹیم کے نائب کپتان کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے۔اس کے باوجود بابر کو یقین ہے کہ ٹیم کے چیف کوچ مصباح الحق اور دیگر سینئر کھلاڑی اس بارے میں کافی مددگار ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ کپتان بنتے ہو تو اس میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ جیتیں گے۔
بابر نے کہا کہ آپ کبھی کبھی غلطی بھی کر سکتے ہیں۔میدان پر سینئر کھلاڑی بھی ہوں گے جو آپ کی مدد کریں گے۔کوچ مصباح بھی وہاں رہیں گے اور میں ان سے مدد حاصل کروں گا۔جب بھی مجھے مشورہ کی ضرورت ہو گی، میں سینئر کھلاڑیوں سے مشورہ کروں گا۔جیسے پی سی بی نے مجھے کپتان مقرر کیا ہے ویسے ہی ان کے ہم مزاج نائب کپتان پر بھی بحث ہوگی۔واضح رہے بابر اعظم بہت کم بولتے ہیں اور بمشکل اپنی بات سمجھا پاتے ہیں۔ اسی لئے عام تاثر ہے کہ وہ ڈمی کپتان ہیں جنہیں ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق ڈریسنگ روم سے کنٹرول کرتے ہیں ۔
جب میڈیا نے یہ سوال بابر اعظم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں سو فیصد اپنے فیصلے خود کرتا ہوں۔مصباح بھائی سے مشورہ ضرور کرتا ہوں لیکن مجھ پر کوئی اپنے فیصلے مسلط نہیں کرتا۔ سلیکشن میں بھی اپنا حصہ چاہتا ہوں۔ خیال رہے کہ بابر اعظم اور سرفراز احمد پرانے دوست ہیں۔
بابر اعظم کو جب ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی ملی تو سرفراز احمد کو کپتانی کے ساتھ ساتھ ٹیم میں بھی جگہ نہ مل سکی ۔اب انہیں سرفراز احمد کی جگہ ون ڈے کا کپتان بھی بنادیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک آدھ سیریز کے بعد تبدیلی کی باتیں کرنا زیادتی ہے۔ سرفراز احمد کو بھی موقع ملے گا اس وقت ہمارے دو ہی وکٹ کیپرز ہیں۔ ٹیسٹ میچز میں محمد رضوان اچھا پرفارم کر رہا ہے ، انہیں تسلسل کے ساتھ موقع دینا چاہیے۔ 25 سالہ بابرآعظم کو ان کی بول چال کے حوالےسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
جب وہ پہلی مرتبہ کپتان بن کر آسٹریلیا گئے تو ان کیلئے پریس کانفرنس میں خصوصی طور پر مقامی مترجم کی خدمات بھی حاصل کی گئیں ، ٹاس یا اختتامی تقریب کے موقع پر میڈیا مینجر بابر اعظم کے مترجم کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
اب ایک بار پھر جب سے بابر اعظم کو ٹی ٹوئنٹی کیساتھ ون ڈے کی قیادت سونپی گئی ہے یہ بحث ہونے لگی ہے کہ ابھی بابر اعظم کو گرومنگ کی ضرورت ہے، انہیں کپتانی نہیں سونپنی چاہیے تھی، انہیں انگلش بولنی نہیں آتی۔