گرو دت کی پیدائش 9 جولائی سنہ 1925 کو ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور کے ایک سرسوت برہمن خاندان میں ہوئی تھی جبکہ انہوں نے کلکتہ(کولکاتا) سے تعلیم حاصل کی۔
گرو دت 20 برس کی عمر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا میں داخل ہو ئے تھے جہاں انہیں گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
انہی دنوں ان کی ملاقات گورنمنٹ کالج لاہور سےتعلیم مکمل کرنے والے ایک خوبرو نوجوان دیو آنند سے ہوئی جو فلموں میں اداکار کے طور پر قسمت آزما رہے تھے اور دونوں میں خاصی دوستی ہوگئی۔
گرو دت اور دیو آنند کے بیچ ایک دوستانہ معاہدہ ہوا جس میں یہ طے پایا کہ اگر گرو دت پہلے ہدایتکار بن جاتے ہیں تو وہ اپنی پہلی فلم میں دیوآنند کو کام کرنے کا موقع دیں گے اور اگر دیوآنند نے پہلے فلمسازی کی تو وہ گرودت کا انتخاب ڈائریکٹر کے طور پر کریں گے۔
اس واقعے کے ڈھائی تین برس بعد دیو آنند کے بڑے بھائی نے اپنی فلم کمپنی شروع کرکے پہلی فلم 'بازی' کا اعلان کیا۔
دیوآنند اس فلم میں ہیرو تھے اور انہوں نے وعدے کے مطابق ہدایتکاری کے فرائض گرو دت کے حوالے کردیئے اس طرح دونوں وعدے ایک ساتھ پورے ہوگئے۔
اکثر لوگ فلم 'بازی' کو گرو دت کی پہلی فلم سمجھتے ہیں لیکن گرو دت 'بازی' سے پہلے تین فلموں میں کام کرچکے تھے جن میں 'لاکھا رانی (1945)، ہم ایک ہیں (1946) اور گرلز اسکول (1949) تھیں۔
کافی کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ گرو دت نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز ایک ڈانس ڈائریکٹر کی حیثیت سے مشہور پربھات اسٹوڈیو میں فلم 'لاکھا رانی' سے کیا تھا۔ اُنہوں نے سنہ 1942 سے 1944 تک اُستاد اُدے شنکر کی المورا ڈانس اکیڈمی میں تربیت حاصل کی تھی۔
اشاروں میں ہی سب کچھ کہنے والا اداکار
فلموں میں اپنے کریئر میں اُنہوں نے بطور اداکار کُل 17 فلموں میں کام کیا جس میں سے 8 فلمیں انہوں نے خود ڈائریکٹ کیں اور یہی فلمیں اُن کی سب سے بہترین فِلمیں بھی ثابت ہوئیں۔
گرو دت کی مشہور فلموں میں صاحب بیوی اور غلام، اور چودہویں کا چاند شامل ہیں جو انہوں نے ڈائریکٹ نہیں کیں۔
اگر گرو دت کی چار فلموں کو بے مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان میں دو مزاحیہ اور دو سنجیدہ فلمیں شامل ہیں۔ گرو دت کے کام کرنے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ پہلے ایک کامیڈی بناتے اور اُس کے فوراً بعد ایک سنجیدہ فلم بنانا شروع کر دیتے۔
اگر محبوب خان، بمل رائے اورراج کپور کی فِلموں نے دیوداس کے امیج کی صورت میں اس دور کے نوجوان کی ایک الگ اور نئی تصویر پیش کی تو گرو دت نے اُس مایوس سنجیدہ ہیرو کوایک ذاتی اور سیاسی پہچان دی۔
ایک ایسے وقت میں جب انڈین سنیما ایک نئے دور کی تلاش میں تھا تب گرو دت نے اپنی فلموں میں بہت سے مشکل مسائل اٹھا کر لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ اِن سوالوں کے جواب شاید خود گرو دت کو آخر تک نہ مل سکے لیکن اِن سوالوں سے گرو دت نے انڈین سِنیما کی ایک ایسی الگ تاریخ لکھی جس کا اثر آج بھی سِنیما پر نظر آتا ہے۔
گُرو دت کو اُردو سے محبت کافی تھی۔ اُن کی فِلموں میں ایسی اردو شاعری کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جس کی پیدائش ممبئی کی فلم انڈسٹری میں ہوا اور جس کا اثر آج بھی فلم انڈسٹری پر صاف نظر آتا ہے۔
ساحر لدھیانوی کی اس اردو سے محبت کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ یہ وہ اردو تھی جو خود گرو دت کے جذبات اور حالات سے واقف تھی۔
سال 1951 بمبئی کی فلمی صنعت کا ایک زریں سال تھا۔ اُس برس دلیپ کمار اور نرگس کی فلم دیدار اور ہلچل، مدھوبالا اور دلیپ کمار کی ترانہ، ہدایتکار ضیا سرحدی کی 'ہم لوگ' اور راج کپور کی عالمی شہرت یافتہ فلم 'آوارہ' بھی ریلیز ہوئی تھی۔
اتنے سخت مقابلے کے باوجود گرُو دت کی فلم 'بازی' نے اچھا خاصا بزنس کیا اور 25 برس کی عمر میں گرو دت کو ایک مستند ہدایتکار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔
سال 1952 میں گرو دت نے فلم 'جال' ڈائریکٹ کی جو کہ جنوبی ہند کے ساحلی علاقے میں واقع ایک عیسائی بستی کی کہانی تھی۔ اگلے برس فلم 'بازی' بنائی جس میں بحری قذاقی کے موضوع کو آزمایا گیا اور ایک برس بعد گرودت کی معروف فلم آر پار سامنے آئی جو اپنی سادہ لیکن پُر اثر کہانی، شیاما کی فطری اداکاری اور او پی نیر کی دلکش موسیقی کے باعث زبردست کامیاب ثابت ہوئی۔
اس کے ایک برس بعد انہوں نے اپنے زمانے سے بہت آگے کی کہانی پر مبنی فلم مسٹر اینڈ مسز 55 پیش کی جو آج بھی دیکھنے پر نئی فلم معلوم ہوتی ہے۔
آر پار اور مسٹر اینڈ مسز 55 کا شمار بھارت کی یادگار مزاحیہ فلموں میں کیا جاتا ہے جبکہ پیاسا اور کاغذ کے پھول نہ صرف ہندوستانی بلکہ عالمی سنیما کی دو نہایت ہی اہم فِلمیں مانی جاتی ہیں۔ اِن دو فِلموں میں پیاسا ایک بہترین فلم تھی جو کافی مقبول ہوئی۔
سال 1956 میں گرودت کی فلم 'سی آئی ڈی' منظرِ عام پر آئی، بازی اور آر پار کی طرح یہ بھی جرم و سزا کی ایک کہانی تھی لیکن اس میں گرو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا اور ہدایتکار کی ذاتی زندگی میں یہ واقعی ایک انتہائی اہم موڑ ثابت ہوا۔
سال 1953 میں گرو دت نے اس زمانے کی معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کر لی تھی جس سے اُن کے دو بیٹے ہوئے اور زندگی بڑی خوشگوار گزر رہی تھی لیکن وحیدہ رحمان گرُو دت کی فلمی زندگی میں داخل ہوئی تو ان کی گھریلو زندگی میں ایک طوفان سا آگیا۔
گیتا دت پر افسردگی اور جھنجھلاہٹ کے دورے پڑنے لگے۔ اس نے شوہر کی جاسوسی شروع کردی اور ایک روز کہیں سے اطلاع ملنے پر کار میں شوہر کا پیچھا شروع کردیا کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ وحیدہ رحمان کے پاس جا رہے ہے۔
اس بات کی بات خبر جب گرو دت ہوئی تو وہ سخت برہم ہوئے اور اس روز سے ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار کھڑی ہوگئی۔
گرُو دت کے دوستوں کی ہمدردیاں چونکہ ان کی بیوی کے ساتھ تھیں اس لیے وہ ایک ایک کر کے گرودت سے دور ہونے لگے۔
گیتا دت نے بھی تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچوں کو لے کر وہاں چلی گئی۔ وحیدہ رحمان نے جب دیکھا کہ گرودت کی تمام پریشانیوں کا الزام ان پر آرہا ہے تو انہوں نے بھیگرو دت سے دوری بنا لی اور یوں گرودت بالکل تنہا رہ گئے۔
انہی پریشانیوں کے دنوں میں ان کی فلم پیاسا ریلیز ہوئی جس میں ایک سچے فنکار کی مشکلات اور فن کے بارے میں دنیا والوں کی بے حسی کو پیش کیا گیا تھا۔
فلمی پنڈتوں کے اندازوں اور پیش گوئیوں کے برعکس فلم پیاسا انتہائی کامیاب رہی۔ اس فلم میں ساحر لدھیانوی نے جس طرح کے گیت لکھے اس کا ایک ایک لفظ صورتِ حال پر سو فیصد درست بیٹھتا تھا۔
اس کامیابی سے حوصلہ پاکر گرو دت نے فن کار کا حتمی المیہ پیش کرنے کے لیے ایک سوانحی فلم تیار کی جس میں ایک فلمی ہدایتکار کی زندگی پیش کی گئی تھی جو کہ بیوی اور محبوبہ کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ جاتا ہے اور آخرکار شراب میں زندگی کو ہمیشہ کے لیے غرق کر کے ہر طرح کے مصائب سے آزاد ہوجاتا ہے۔
گرُو دت نے 'کاغذ کے پھول' بڑے دل سے بنائی تھی اور اس کا مہورت دہلی میں اس وقت کے نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کے ہاتھوں رکھا گیا تھا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ثابت ہوئی۔
اس ناکامی نے گرودت کو توڑ کے رکھ دیا۔ بطور ہدایتکار ان کی خود اعتمادی خاک میں مل گئی، حتٰی کہ جب فلم صاحب بی بی اور غلام بن کر تیار ہوئی تو اس پر بطور ہدایتکار گرُو دت نے اپنا نام بھی نہیں دیا۔
نو اکتوبر 1964 کی شام کو گرو دت کی بیشتر فلموں کے رائٹر اور دوست ابرار علوی ان کے پاس تھے اور کھانے پینے کی محفل کے بعد رات کے ایک بجے تک اُن کی گپ شپ ہوتی رہی۔
باتوں باتوں میں اس پر بھی بحث ہوئی کہ بعض لوگ خود کشی کے لیے بڑی تعداد میں نیند کی گولیاں کھا لیتے ہیں لیکن پھر بھی موت دغا دے جاتی ہے اور انہیں اسپتال لے جاکر بچا لیا جاتا ہے۔
چنانچہ دونوں نے ہنسی مذاق میں اس بات پر اتفاق کیا کہ گولیاں پھانکنے کی بجائے انھیں باریک پیس کر پانی میں حل کر لینا چاہیے تاکہ فوری اثر ہو۔ رات کے ایک بجے کے قریب گرُو دت نے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے اور ابرار علوی اپنے گھر چلے گئے۔
دس اکتوبر کا 1964 کا دِن گرو دت کے چاہنے والوں کے لیے بڑا مایوس کن دن تھا جب گیتا دت کے اصرار پر بیڈروم کا دروازہ توڑا گیا تو اندر بستر پر گرُو دت ابدی نیند سو رہے تھے۔
ابرار علوی نے دیکھا کہ میز کے نیچے ایک گلاس پڑا ہے جس میں پیلے رنگ کا گاڑھا سا کچھ محلول اب بھی پیندے سے لگا ہوا ہے اور نیند کی گولیوں والی ڈبیہ خالی ہے۔
گرو دت کی خودکشی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔ سب سے پہلے دیو آنند موقع پر پہنچے اور راج کپور کو خبر کی، وہاں سے یہ اطلاع پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری کو پہنچی، جانی واکر اور وحیدہ رحمان اس وقت مدراس میں شوٹنگ کر رہے تھے۔ خبر ملتے ہی سب کام چھوڑ کر انہوں نے بمبئی کا راستہ پکڑا۔ سہ پہر تک بمبئی کے سبھی فلمی ستارے اور دیگر اہم شخصیات گرو دت کے فلیٹ پر جمع ہو چکی تھیں۔
اگلے روز سب اخباروں کی سرخیوں میں گرُو دت موجود تھے۔ مشہور فلمی میگزین فلم فیئر نے گرو دت کی یاد میں خصوصی شمارا نکالا جس میں کیفی اعظمی نے بھی گرُو دت کو خراجِ عقیدت پیش کیا جو اس طرح شروع ہوتا تھا۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد ان کا مقدر بنی، 1970 کی دہائی میں ان کی فلمیں پھر سے مقبول ہونے لگیں اور 1980 میں ایک فرانسیسی محقق نے اُس پر اپنی ریسرچ شائع کی تو گرو دت کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔
سنہ 1980 کے عشرے میں گرودت کی فلموں کے میلے پہلے فرانس میں اور پھر یورپ کے دیگر شہروں میں منعقد ہوئے۔ مشہور فِلم اسکالر لاورا ملوی نے سائٹ اینڈ ساونڈ میگزین میں گرو دت کی فلم 'پیاسا' کو دُنیا کی دس بہترین فلموں میں شمار کیا۔
آج دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں بھارتی کمرشیل سنیما کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، گرُو دت کے نام لیوا موجود ہیں اور جو شاہکار وہ وقت سے پہلے تخلیق کر گئے تھے آج اُن کی تفہیم اور کامل تحسین کا ماحول بھی پیدا ہو چکا ہے۔