ETV Bharat / opinion

بیٹل گراونڈ؛ امریکا 2020: کیا امریکا عالمی تنظیموں کی قیادت چھوڑ دے گا؟

سینئرصحافی سمیتا شرما نے ’’بیٹل گراؤنڈ امریکا 2020ء‘‘ ایک اور قسط میں کئی شخصیات کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ اس بات چیت میں اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے کی حیثیت سے اپنی خدمات دے چکے اشوک مکھرجی نے کہا، ’’دُنیا کی قیادت کا کردار، جو امریکا جنوری 1942ء سے ادا کرتا آیا ہے، وہ اب داؤ پر لگا ہوا ہے۔ واشنگٹن کانفرنس کے انعقاد سے لیکر اب تک امریکی قیادت میں دُنیا نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے، جس کے دوران ادارہ اقوام متحدہ بھی تشکیل پایا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ سال کے دوران امریکا کی قیادت جو اسے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران حاصل ہوئی تھی، کو نقصان پہنچا ہے۔ آنے والے انتخابات کے نتائج کے زبردست اثرات اس امریکی قیادت کے کلیدی مسئلہ پر مرتب ہونگے۔‘‘

بیٹل گراونڈ؛ امریکا 2020:کیا امریکا عالمی تنظیموں کی قیادت چھوڑ دے گا؟
بیٹل گراونڈ؛ امریکا 2020:کیا امریکا عالمی تنظیموں کی قیادت چھوڑ دے گا؟
author img

By

Published : Aug 31, 2020, 1:27 PM IST

ڈونالڈ ٹرمپ نے ریپبلیکن نیشنل کنونشن کی اختتامی شب کو صدارتی عہدے کے لئے دوبارہ اپنی نامزدگی کو رسمی طور قبول کرنے کے بعد اپنی تقریر میں کہا، ’’جب ہم نے اقتدار سنبھالا، تو ہم نے ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ کو ختم کرنے کی پچھلی سرکار کے طریقہ کار بدلتے ہوئے واشنگٹن کی انتظامیہ کو ہلا دیا۔ اس کے بعد میں کی سٹون ایکس ایل (کینیڈا سے امریکا کے جنوبی علاقوں میں واقع ریفائنریوں کے لئے پیٹرول کی ترسیلی لائینیں بچھانے کا منصوبے) اور ڈیکوٹا رسائی پائپ لائن (ڈیکوٹا پیٹرول لائن کی تعمیر) کو منظوری دے دی۔ اسکے بعد میں نے مالی لحاظ سے نقصان دہ پیرس کلائمیٹ ایکارڈ (انسداد آلودگی سے متعلق پیرس میں ہوئے عالمی معاہدہ) کو ختم کردیا اور اس طرح سے پہلی بار توانائی کے شعبے میں امریکا کی خود مختاری کو بچالیا۔‘‘

ٹرمپ نے اپنی اس 71 منٹ کی تقریر میں اپنے دور اقتدار میں اپنائی گئی ’امریکا فرسٹ پالیسی‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا، ’’ میں خوفناک اور یکطرفہ ایران نیو کلیئر ڈیل سے دسبردار ہوگیا۔‘‘

اب سوال یہ ہے کہ وائٹ ہاوس میں اقتدار کی اس دوڑ کی وجہ سے دُنیا اور عالمی اداروں کی کونسی چیزیں داو پر لگی ہوئی ہیں؟ کیا ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کی صورت میں امریکا ملکی مفادات کو ترجیح دینے کی پالیسی کو جاری رکھے گا اور کیا وہ عالمی اداروں کی قیادت کا اپنا رول چھوڑ دے گا۔

ان سوالات پر سینئر صحافی سمیتا شرما نے ’’بیٹل گراونڈ امریکا 2020ء‘‘ ایک اور قسط میں کئی شخصیات کے ساتھ بات چیت کی ہے۔اس بات چیت میں اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے کی حیثیت سے اپنی خدمات دے چکے اشوک مکھرجی نے کہا، ’’دُنیا کی قیادت کا کردار، جو امریکا جنوری 1942ء سے ادا کرتا آیا ہے، داو پر لگا ہوا ہے۔ واشنگٹن کانفرنس کے انعقاد سے لیکر اب تک امریکی قیادت میں دُنیا نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے، جس کے دوران ادارہ اقوام متحدہ بھی تشکیل پایا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ سال کے دوران امریکا کی قیادت جو اسے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران حاصل ہوئی تھی، کو نقصان پہنچا ہے۔ آنے والے انتخابات کے نتائج کے زبردست اثرات اس امریکی قیادت کے اس کلیدی مسئلہ پر مرتب ہونگے۔‘‘

ریٹائرڈ سفارتکار نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اداروں کی قیادت چھوڑنے کی وجہ سے امریکا کا رتبہ کم ہوگیا ہے۔ سال 2006ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہیومن رائٹس کونسل (انسانی حقوق کونسل) قائم کی۔ اُس وقت جان بولٹن امریکی اقوام متحدہ میں امریکی سفیر تھے۔ اُنہوں نے انسانی حقوق کونسل کے اس ادارے کو قائم کرنے مخالفت کی۔ اُن کے ہمراہ دیگر تین ممالک نے بھی اس کی مخالفت کی۔ لیکن جنرل اسمبلی میں 170 ممالک نے انسانی حقوق کونسل کے قیام کی حمایت کی اور کونسل تشکیل دیدیا گیا۔ اس کے بعد امریکا تین سال تک اس ادارے سے باہر رہا۔ اس نے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور ان تین سال کے دوران کونسل نے قواعد و ضوابط مرتب کئے۔ ان میں اسرائیل کے ساتھ نمٹنے سے متعلق قواعد و ضوابط بھی شامل ہیں۔ اگر ہم تھوڑا پیچھے کی طرف جائیں تو یاد کیا جاسکتا ہے کہ امریکی سفارتکار نیلی ہیلے نے ان قواعد و ضوابط کو ہدف تنقید بنایا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ اس کمرے میں موجود ہی نہیں ہیں، جس میں بیٹھ کر یہ قواعد و ضوابط مرتب جارہے ہوں، تو آپ کمرے سے باہر اس کا تدارک بھی نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘

ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا نے پیرس کلائمٹ ایکٹ سے لیکر ایران نیو کلیر ڈیل تک کئی معاہدوں سے دسبردار ہوگیا ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی کئی ایجنسیوں اور تجارت و ماحولیات سے متعلق کئی کثیر الجہتی معاہدوں کی فنڈنگ کم کردی۔ اسکے علاوہ امریکا نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ تجارت) جسیے کئی اداروں کو کمزور کیا۔ سوال یہ کہ اگر جو بیدن نے نومبر کی انتخابی دوڈ میں فتح پائی تو کیا اس کی انتظامیہ ٹرمپ حکومت کے ان فیصلوں کو بدل دے گی اور عالمی کثیر الجہتی نظام کو دوبارہ مضبوط کرے گی؟ کیا بیدن انتظامیہ اب جبکہ ایران، چین اور روس کے درمیان سٹریٹجیک تعاون بڑھ گیا ہے، دوبارہ ایران نیو کلیئر معاہدہ کرے گی؟

ان سوالات کے جواب میں اقوام متحدہ کے سابق ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر راجیش پی راجاگوپالن کہتے ہیں، ’’ اوبامہ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ وہ معاہدہ کیا تھا، جو پوری طرح ایران کے حق میں تھا۔ یہ بات سب کو پسند نہیں آئے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران نے اس ڈیل کے حوالے اپنے حق میں سودے بازی میں کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اس معاہدے میں ایران نے انسپکشنز وغیرہ کا عمل بھی بند کروادیا تھا۔اس معاہدے کی ہر شق کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ایران نے اپنے حق میں سودے بازی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔‘‘ ڈاکٹر راجا گوپالن جو اوبزرور ریسرچ فاونڈیشن (او آر ایف) میں نیو کلیئر اینڈ سپیس انیشیٹیو کے سربراہ بھی ہیں، کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایران اپنے نیو کلیر پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وجہ سے بیدن انتظامیہ کے لئے نیو کلیئر معاہدے پر سر نو غور کرنا بہت مشکل ہوگا اور وہ بھی اب ایک ایسے وقت میں جب چین کی تہران کے ساتھ قربت بڑھ گئی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ یہ صورتحال بیدن کی ٹیم کےلئے حساس ہوگی کیونکہ اسے یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ چین کے حوالے سے زیادہ سخت موقف کا حامل ہے۔ اسے یہ بتانا پڑے گا کہ وہ چین سے جڑے مسائل اور چیلنجز کا کیسے مقابلہ کریں گے۔ کیونکہ چین سے جڑا مسئلہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بڑا ہوگیا ہے۔ چین اقوام متحدہ سے جڑے کئی اداروں کی قیادت کررہا ہے۔ امریکا نے چین کےلئے کافی حد سٹریٹجیک سپیس خالی چھوڑ دی ہے۔ بیدن کےلئے اب یہ ایک مسئلہ ہوگا کہ وہ ایران اور چین کے درمیان طاقت کے تال میل یا پھر ایران، چین اور روس کے اتحاد سے کیسے نمٹنے۔ ان تینوں ممالک گزشتہ سال کے آخر میں مشترکہ بحری مشقیں بھی کی ہیں۔‘‘

کیا پیرس کلائمٹ ایکٹ سے دسبردار ہوجانے کا معاملہ ایک انتخابی مسئلہ ہے ؟ اس سوال کے جواب میں نیویارک میں مقیم سینئر صحافی یوشیتا سنگھ، جو پی ٹی آئی کے ساتھ جڑے ہیں، کا کہنا ہے، ’’جنگلات میں آتشزنی کے واقعات، سمندری طوفان اور ایشیا میں آنے والے سیلاب جیسی ساری باتیں موسمی تغئر کا نتیجہ ہیں۔ اس کے اثرات ہم سب کی زندگیوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ امریکا تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والا ملک رہا ہے۔ اس صورتحال کے ہوتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے پیرس معاہدے سے دسبرداری کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ یہ معاہدہ چند ہفتوں یا ایک مہینے کی محنت کے نتیجے میں عمل میں نہیں لایا گیا تھا۔ بلکہ یہ برسوں کی کوششوں کے بعد طے پایا گیا تھا اور اس سے بہت سارے متعلقین جڑے ہوئے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ اس مسئلے کے نتائج ہم سب انسانوں پر مرتب ہورہے ہیں، خاص طور سے خطرات سے دوچار آبادیاں، چھوٹے جزیرے اور ترقی پذیر ممالک اس کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں۔‘‘

اُنہوں نے مزید کہا، ’’ اُس وقت لوگ اپنا ووٹ دیتے وقت موسمی تغیر کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھیں گے۔ بلکہ رائے دہندگان معیشت، نوکریوں، وبا کے دور میں صحت عامہ جیسے مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی اپنا ووٹ دیں گے۔ امریکا بھلے ہی دُنیا کا سب سے طاقتور ملک اور دُنیا کی سب سے مضبوط معیشت ہو، لیکن وبا نے اسے گھٹنوں پر لاکھڑا کردیا ہے۔ اس کا طبی شعبہ تتر بتر ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لئے ان انتخابات میں یہی وہ اہم مسائل ہونگے، جنہیں رائے دہندگان ووٹ دیتے وقت ملحوظ نظر رکھیں گے۔‘‘

درایں اثنا ٹرمپ کے صدارتی حریف جو بیدن نے واضح کیا ہے کہ اگر وہ بر سر اقتدار آگئے تو امریکا دوبارہ عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کا حصہ بنے گا۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے نیشنل کنونشن میں اس بات کا عہد کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امریکا عالمی ادارہ صحت کا دوبارہ سب سے بڑا فنڈ کرنا والا ملک اور اس کا ٹیکنیکل پارٹنر ہو۔ ٹرمپ کی جانب سے اس ادارے کا تعاون واپس لینے کا عمل سال بھر پہلے شروع ہوگیا ہے اور امریکا اس سال دسنبر کے ابتدا میں عالمی ادارہ صحت سے عملی طور پر الگ ہوگا۔

ڈاکٹر راجا گوپالن نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ امریکا کی جانب سے عالمی ادارہ صحت سے الگ ہوجانے کے سنگین نتائج ہونگے۔ جیسے کہ اس طرح سے چین اور دوسرے ممالک کا اس ادارے میں اثر و نفوذ بڑھ جائے گا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس وقت بعض کثیر الجہتی اداروں میں اصلاحات لانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان کا کنٹرول کسی واحد ملک کے ہاتھوں میں نہ رہے۔ یعنی ان اداروں کو کوئی واحد ملک ہائی جیک نہ کرپائے اور ان کثیر الجہتی اداروں کی قیادت کسی واحد ملک کے پاس نہ رہے۔ بھارت کے پاس بھی ان اداروں کے حوالے سے صلاحیت موجودہ ہے بلکہ اس حوالے سے اس کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ بھارت اپنے اتحادیوں اور پارٹنرز کے ساتھ مل کر ان اداروں میں غیر جانبداری، شفافیت،اور احتساب جیسی باتوں کا نفاذ یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘

اشوک مکھرجی کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ عالمی ادارہ صحت پر سنگین الزامات لگے ہیں۔ خاص طور سے یہ الزام کہ اس ادارے نے وبا پھوٹنے کے بعد بیجنگ کی طرفداری کی ہے۔ اس لئے اس ادارے میں اصلاحات لانے اور اس کی اعتباریت بحال کرنے کے حوالے سے مسائل کا حل اس کے اندر سے ہی برآمد ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب کثیر الجہتی نظام اور امریکی قیادت کے معاملات پر بحث و مباحثہ جاری ہے، بھارت اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کے رکن، جو کہ وہ سال 2021ء میں منتخب ہوگا، کی حیثیت سے خود کو اہم معاملات کے تئیں ایک موثر کردار ادا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔

اشوک مکھر جی نے کہا، ’’اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کے اندر بھارت کو ایشیاء کے آس پڑوس کے مسائل کے تئیں زیادہ متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ یمن، شام اور جنوبی سوڈان جیسے خطوں، جہاں بھارت کی معاشی سرمایہ کاری ہے، کے مسائل کو حل کرنے کا کام صرف مستقل ممبران پر ہی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔‘‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بیدن اور اُن کی نائب ہیرس کثیر الجہتی اداروں میں امریکا کی قیادت کو واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور اُس صورت میں کیا ہوگا اگر ٹرمپ دوبارہ برسر اقتدار آگئے؟، یوشیتا سنگھ نے جواب دیا، ’’اس بات کا امکان ہے کہ ڈیموکریٹس اقتدار سنبھالیں گے۔ ممکن ہے کہ بیدن کے پاس اکثریت ہو اور وہ امریکا کو واپس ان معاہدوں کے دائرے میں لاپائیں۔ اور اس ضمن میں وہ اقداماے کرے۔‘‘

اُنہوں نے مزید کہا، ’’ لیکن آنے والے دو سال کے دوران اقوام متحدہ سے جڑے لگ بھگ پندرہ کلیدی اداروں میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ سے جڑی اہم تنطیموں اور ایجنسیز کے سربراہوں کا انتخاب ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف اقوام متحدہ سے جڑی ایجنسیز کو ہدف تنقید بنایا ہے بلکہ خود ادارہ اقوام متحدہ کی بھی سخت تنقید کی ہے۔ اس لئے اگر صدر ٹرمپ دوبارہ برسر اقتدار آگئے اور انہوں نے اقوام متحدہ سے جڑے ان اداروں کے انتخابات میں شرکت نہیں کی تو چین اور دوسرے ممالک کو اقوام متحدہ میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کا موقعہ ملے گا۔ پھر یہ ممالک اقوام متحدہ سے جڑی متعلقہ تنظیموں کی سربراہی کریں گے اور فیصلہ سازی کریں گے۔ ان باتوں کے پیش نطر امریکا کو سمجھنا ہوگا کہ اسے کثیر الجہتی نظام سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

ڈونالڈ ٹرمپ نے ریپبلیکن نیشنل کنونشن کی اختتامی شب کو صدارتی عہدے کے لئے دوبارہ اپنی نامزدگی کو رسمی طور قبول کرنے کے بعد اپنی تقریر میں کہا، ’’جب ہم نے اقتدار سنبھالا، تو ہم نے ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ کو ختم کرنے کی پچھلی سرکار کے طریقہ کار بدلتے ہوئے واشنگٹن کی انتظامیہ کو ہلا دیا۔ اس کے بعد میں کی سٹون ایکس ایل (کینیڈا سے امریکا کے جنوبی علاقوں میں واقع ریفائنریوں کے لئے پیٹرول کی ترسیلی لائینیں بچھانے کا منصوبے) اور ڈیکوٹا رسائی پائپ لائن (ڈیکوٹا پیٹرول لائن کی تعمیر) کو منظوری دے دی۔ اسکے بعد میں نے مالی لحاظ سے نقصان دہ پیرس کلائمیٹ ایکارڈ (انسداد آلودگی سے متعلق پیرس میں ہوئے عالمی معاہدہ) کو ختم کردیا اور اس طرح سے پہلی بار توانائی کے شعبے میں امریکا کی خود مختاری کو بچالیا۔‘‘

ٹرمپ نے اپنی اس 71 منٹ کی تقریر میں اپنے دور اقتدار میں اپنائی گئی ’امریکا فرسٹ پالیسی‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا، ’’ میں خوفناک اور یکطرفہ ایران نیو کلیئر ڈیل سے دسبردار ہوگیا۔‘‘

اب سوال یہ ہے کہ وائٹ ہاوس میں اقتدار کی اس دوڑ کی وجہ سے دُنیا اور عالمی اداروں کی کونسی چیزیں داو پر لگی ہوئی ہیں؟ کیا ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کی صورت میں امریکا ملکی مفادات کو ترجیح دینے کی پالیسی کو جاری رکھے گا اور کیا وہ عالمی اداروں کی قیادت کا اپنا رول چھوڑ دے گا۔

ان سوالات پر سینئر صحافی سمیتا شرما نے ’’بیٹل گراونڈ امریکا 2020ء‘‘ ایک اور قسط میں کئی شخصیات کے ساتھ بات چیت کی ہے۔اس بات چیت میں اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے کی حیثیت سے اپنی خدمات دے چکے اشوک مکھرجی نے کہا، ’’دُنیا کی قیادت کا کردار، جو امریکا جنوری 1942ء سے ادا کرتا آیا ہے، داو پر لگا ہوا ہے۔ واشنگٹن کانفرنس کے انعقاد سے لیکر اب تک امریکی قیادت میں دُنیا نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے، جس کے دوران ادارہ اقوام متحدہ بھی تشکیل پایا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ سال کے دوران امریکا کی قیادت جو اسے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران حاصل ہوئی تھی، کو نقصان پہنچا ہے۔ آنے والے انتخابات کے نتائج کے زبردست اثرات اس امریکی قیادت کے اس کلیدی مسئلہ پر مرتب ہونگے۔‘‘

ریٹائرڈ سفارتکار نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اداروں کی قیادت چھوڑنے کی وجہ سے امریکا کا رتبہ کم ہوگیا ہے۔ سال 2006ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہیومن رائٹس کونسل (انسانی حقوق کونسل) قائم کی۔ اُس وقت جان بولٹن امریکی اقوام متحدہ میں امریکی سفیر تھے۔ اُنہوں نے انسانی حقوق کونسل کے اس ادارے کو قائم کرنے مخالفت کی۔ اُن کے ہمراہ دیگر تین ممالک نے بھی اس کی مخالفت کی۔ لیکن جنرل اسمبلی میں 170 ممالک نے انسانی حقوق کونسل کے قیام کی حمایت کی اور کونسل تشکیل دیدیا گیا۔ اس کے بعد امریکا تین سال تک اس ادارے سے باہر رہا۔ اس نے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور ان تین سال کے دوران کونسل نے قواعد و ضوابط مرتب کئے۔ ان میں اسرائیل کے ساتھ نمٹنے سے متعلق قواعد و ضوابط بھی شامل ہیں۔ اگر ہم تھوڑا پیچھے کی طرف جائیں تو یاد کیا جاسکتا ہے کہ امریکی سفارتکار نیلی ہیلے نے ان قواعد و ضوابط کو ہدف تنقید بنایا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ اس کمرے میں موجود ہی نہیں ہیں، جس میں بیٹھ کر یہ قواعد و ضوابط مرتب جارہے ہوں، تو آپ کمرے سے باہر اس کا تدارک بھی نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘

ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا نے پیرس کلائمٹ ایکٹ سے لیکر ایران نیو کلیر ڈیل تک کئی معاہدوں سے دسبردار ہوگیا ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی کئی ایجنسیوں اور تجارت و ماحولیات سے متعلق کئی کثیر الجہتی معاہدوں کی فنڈنگ کم کردی۔ اسکے علاوہ امریکا نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ تجارت) جسیے کئی اداروں کو کمزور کیا۔ سوال یہ کہ اگر جو بیدن نے نومبر کی انتخابی دوڈ میں فتح پائی تو کیا اس کی انتظامیہ ٹرمپ حکومت کے ان فیصلوں کو بدل دے گی اور عالمی کثیر الجہتی نظام کو دوبارہ مضبوط کرے گی؟ کیا بیدن انتظامیہ اب جبکہ ایران، چین اور روس کے درمیان سٹریٹجیک تعاون بڑھ گیا ہے، دوبارہ ایران نیو کلیئر معاہدہ کرے گی؟

ان سوالات کے جواب میں اقوام متحدہ کے سابق ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر راجیش پی راجاگوپالن کہتے ہیں، ’’ اوبامہ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ وہ معاہدہ کیا تھا، جو پوری طرح ایران کے حق میں تھا۔ یہ بات سب کو پسند نہیں آئے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران نے اس ڈیل کے حوالے اپنے حق میں سودے بازی میں کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اس معاہدے میں ایران نے انسپکشنز وغیرہ کا عمل بھی بند کروادیا تھا۔اس معاہدے کی ہر شق کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ایران نے اپنے حق میں سودے بازی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔‘‘ ڈاکٹر راجا گوپالن جو اوبزرور ریسرچ فاونڈیشن (او آر ایف) میں نیو کلیئر اینڈ سپیس انیشیٹیو کے سربراہ بھی ہیں، کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایران اپنے نیو کلیر پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وجہ سے بیدن انتظامیہ کے لئے نیو کلیئر معاہدے پر سر نو غور کرنا بہت مشکل ہوگا اور وہ بھی اب ایک ایسے وقت میں جب چین کی تہران کے ساتھ قربت بڑھ گئی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ یہ صورتحال بیدن کی ٹیم کےلئے حساس ہوگی کیونکہ اسے یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ چین کے حوالے سے زیادہ سخت موقف کا حامل ہے۔ اسے یہ بتانا پڑے گا کہ وہ چین سے جڑے مسائل اور چیلنجز کا کیسے مقابلہ کریں گے۔ کیونکہ چین سے جڑا مسئلہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بڑا ہوگیا ہے۔ چین اقوام متحدہ سے جڑے کئی اداروں کی قیادت کررہا ہے۔ امریکا نے چین کےلئے کافی حد سٹریٹجیک سپیس خالی چھوڑ دی ہے۔ بیدن کےلئے اب یہ ایک مسئلہ ہوگا کہ وہ ایران اور چین کے درمیان طاقت کے تال میل یا پھر ایران، چین اور روس کے اتحاد سے کیسے نمٹنے۔ ان تینوں ممالک گزشتہ سال کے آخر میں مشترکہ بحری مشقیں بھی کی ہیں۔‘‘

کیا پیرس کلائمٹ ایکٹ سے دسبردار ہوجانے کا معاملہ ایک انتخابی مسئلہ ہے ؟ اس سوال کے جواب میں نیویارک میں مقیم سینئر صحافی یوشیتا سنگھ، جو پی ٹی آئی کے ساتھ جڑے ہیں، کا کہنا ہے، ’’جنگلات میں آتشزنی کے واقعات، سمندری طوفان اور ایشیا میں آنے والے سیلاب جیسی ساری باتیں موسمی تغئر کا نتیجہ ہیں۔ اس کے اثرات ہم سب کی زندگیوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ امریکا تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والا ملک رہا ہے۔ اس صورتحال کے ہوتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے پیرس معاہدے سے دسبرداری کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ یہ معاہدہ چند ہفتوں یا ایک مہینے کی محنت کے نتیجے میں عمل میں نہیں لایا گیا تھا۔ بلکہ یہ برسوں کی کوششوں کے بعد طے پایا گیا تھا اور اس سے بہت سارے متعلقین جڑے ہوئے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ اس مسئلے کے نتائج ہم سب انسانوں پر مرتب ہورہے ہیں، خاص طور سے خطرات سے دوچار آبادیاں، چھوٹے جزیرے اور ترقی پذیر ممالک اس کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں۔‘‘

اُنہوں نے مزید کہا، ’’ اُس وقت لوگ اپنا ووٹ دیتے وقت موسمی تغیر کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھیں گے۔ بلکہ رائے دہندگان معیشت، نوکریوں، وبا کے دور میں صحت عامہ جیسے مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی اپنا ووٹ دیں گے۔ امریکا بھلے ہی دُنیا کا سب سے طاقتور ملک اور دُنیا کی سب سے مضبوط معیشت ہو، لیکن وبا نے اسے گھٹنوں پر لاکھڑا کردیا ہے۔ اس کا طبی شعبہ تتر بتر ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لئے ان انتخابات میں یہی وہ اہم مسائل ہونگے، جنہیں رائے دہندگان ووٹ دیتے وقت ملحوظ نظر رکھیں گے۔‘‘

درایں اثنا ٹرمپ کے صدارتی حریف جو بیدن نے واضح کیا ہے کہ اگر وہ بر سر اقتدار آگئے تو امریکا دوبارہ عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کا حصہ بنے گا۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنے نیشنل کنونشن میں اس بات کا عہد کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امریکا عالمی ادارہ صحت کا دوبارہ سب سے بڑا فنڈ کرنا والا ملک اور اس کا ٹیکنیکل پارٹنر ہو۔ ٹرمپ کی جانب سے اس ادارے کا تعاون واپس لینے کا عمل سال بھر پہلے شروع ہوگیا ہے اور امریکا اس سال دسنبر کے ابتدا میں عالمی ادارہ صحت سے عملی طور پر الگ ہوگا۔

ڈاکٹر راجا گوپالن نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ امریکا کی جانب سے عالمی ادارہ صحت سے الگ ہوجانے کے سنگین نتائج ہونگے۔ جیسے کہ اس طرح سے چین اور دوسرے ممالک کا اس ادارے میں اثر و نفوذ بڑھ جائے گا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس وقت بعض کثیر الجہتی اداروں میں اصلاحات لانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان کا کنٹرول کسی واحد ملک کے ہاتھوں میں نہ رہے۔ یعنی ان اداروں کو کوئی واحد ملک ہائی جیک نہ کرپائے اور ان کثیر الجہتی اداروں کی قیادت کسی واحد ملک کے پاس نہ رہے۔ بھارت کے پاس بھی ان اداروں کے حوالے سے صلاحیت موجودہ ہے بلکہ اس حوالے سے اس کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ بھارت اپنے اتحادیوں اور پارٹنرز کے ساتھ مل کر ان اداروں میں غیر جانبداری، شفافیت،اور احتساب جیسی باتوں کا نفاذ یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘

اشوک مکھرجی کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ عالمی ادارہ صحت پر سنگین الزامات لگے ہیں۔ خاص طور سے یہ الزام کہ اس ادارے نے وبا پھوٹنے کے بعد بیجنگ کی طرفداری کی ہے۔ اس لئے اس ادارے میں اصلاحات لانے اور اس کی اعتباریت بحال کرنے کے حوالے سے مسائل کا حل اس کے اندر سے ہی برآمد ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب کثیر الجہتی نظام اور امریکی قیادت کے معاملات پر بحث و مباحثہ جاری ہے، بھارت اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کے رکن، جو کہ وہ سال 2021ء میں منتخب ہوگا، کی حیثیت سے خود کو اہم معاملات کے تئیں ایک موثر کردار ادا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔

اشوک مکھر جی نے کہا، ’’اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کے اندر بھارت کو ایشیاء کے آس پڑوس کے مسائل کے تئیں زیادہ متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ یمن، شام اور جنوبی سوڈان جیسے خطوں، جہاں بھارت کی معاشی سرمایہ کاری ہے، کے مسائل کو حل کرنے کا کام صرف مستقل ممبران پر ہی نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔‘‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بیدن اور اُن کی نائب ہیرس کثیر الجہتی اداروں میں امریکا کی قیادت کو واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور اُس صورت میں کیا ہوگا اگر ٹرمپ دوبارہ برسر اقتدار آگئے؟، یوشیتا سنگھ نے جواب دیا، ’’اس بات کا امکان ہے کہ ڈیموکریٹس اقتدار سنبھالیں گے۔ ممکن ہے کہ بیدن کے پاس اکثریت ہو اور وہ امریکا کو واپس ان معاہدوں کے دائرے میں لاپائیں۔ اور اس ضمن میں وہ اقداماے کرے۔‘‘

اُنہوں نے مزید کہا، ’’ لیکن آنے والے دو سال کے دوران اقوام متحدہ سے جڑے لگ بھگ پندرہ کلیدی اداروں میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ سے جڑی اہم تنطیموں اور ایجنسیز کے سربراہوں کا انتخاب ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف اقوام متحدہ سے جڑی ایجنسیز کو ہدف تنقید بنایا ہے بلکہ خود ادارہ اقوام متحدہ کی بھی سخت تنقید کی ہے۔ اس لئے اگر صدر ٹرمپ دوبارہ برسر اقتدار آگئے اور انہوں نے اقوام متحدہ سے جڑے ان اداروں کے انتخابات میں شرکت نہیں کی تو چین اور دوسرے ممالک کو اقوام متحدہ میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کا موقعہ ملے گا۔ پھر یہ ممالک اقوام متحدہ سے جڑی متعلقہ تنظیموں کی سربراہی کریں گے اور فیصلہ سازی کریں گے۔ ان باتوں کے پیش نطر امریکا کو سمجھنا ہوگا کہ اسے کثیر الجہتی نظام سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.