ETV Bharat / opinion

چین بھوٹان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں

ارونیم بھوہیان نے بھوٹان اور چین کے مابین سفارتی تعلقات حوالے سے کہا ہے کہ چین بھوٹان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے ڈوکلام پر قبضہ جمانا چاہتا ہے اور یہ بھارت کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔ پڑھیں پورا آرٹیکل

ساکٹینگ:چین بھوٹان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے کوشاں
ساکٹینگ:چین بھوٹان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے کوشاں
author img

By

Published : Jul 23, 2020, 6:32 PM IST

چین نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے سرحد سے متصل مشرقی بھوٹان میں ساکٹینگ وائلڈ لائف سینکچری پر دعوی کیا ہے اور اس سرحدی تنازعہ کو سلجھانے کے لیے بیچنگ تھمفو کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے 'پیکیج ڈیل' کی بات کی ہے۔

منگل کے روز چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے میڈیا کانفرنس میں کہا کہ چین نے جنوبی ایشیاء کے چھوٹے ممالک کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک پیکج ڈیل کی پیش کش کی ہے۔

وانگ نے اپنے بیان میں کہا کہ چین نے شروع سے ہی اپنے نقطہ نظر کو مستقل اور واضح رکھا ہے۔چین اور بھوٹان کے مابین سرحد کی حدبندی ابھی باقی ہے اور سرحد کے وسط، مشرقی اور مغربی حصہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین نے ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک تجاویز پیش کی ہے۔چین کثیرالجہتی فورمز میں اس طرح کے تنازعات پر بات چیت کرنے کے خلاف ہے اور چین اس مسئلے کے سلسلے میں متعلقہ فریقوں کے ساتھ بات کرنے میں یقین رکھتا ہے۔

وانگ کا یہ جواب گلوبل اینوائرمنٹ فیسیلٹی(جی ای ایف) کے ذریعہ ساکٹنگ وائلڈ لائف سینکچرری کو تیار کرنے پر چین کے طرف سے اعتراضات ظاہر کرنے کے سوالات کے بعد سامنے آیا ہے۔جی ای ایف ایسی تنظیم ہے جس نے 183 ممالک کو بین الاقوامی اداروں، سول سوسائٹی تنظیموں اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر عالمی ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے متحد کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چین ایسے علاقے پر دعوی کر رہا ہے جو اس کے بین الاقوامی سرحد کے مطابق نہیں ہے، بلکہ یہ علاقہ بھارت اور بھوٹان کی سرحد پر موجود ہے۔یہ معاملہ اس وقت بھی سامنے آیا تھا جب گزشتہ ماہ لداخ میں بھارت اور چین سرحدی تنازعہ میں تناؤ کو ختم کرنے کے لیے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔

مشرقی بھوٹان کی سرحد پر واقع ساکٹینگ وائلڈ لائف سیکنچرری بھارت کی ریاست ارناوچل پردیش سے متصل ہے اور چین اسی علاقے پر دعوی کر رہا ہے،اسے جنوبی تبت بھی کہا جاتا ہے۔

بھوٹان اور چین کے درمیان کوئی سرکاری سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔سنہ 1951 میں چین کے تبت پر قبضہ کرنے کے بعد چین اور بھوٹان کے پڑوسی ممالک بنن گئے تھے، ان دونوں ممالک نے سنہ 1984 کے بعد سے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے 24 مذاکرات کیے ہیں۔

وہیں بھارت اور بھوٹان کے درمیان گہرے سفارتی تعلقات ہیں، نئی دہلی تمفو کے اہم ترقیاتی امدادی شراکت دار ہے۔بھارت بھوٹان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار کا بھی کردار ادا کرتا ہے۔

بھوٹان میں بیجنگ کا تازہ ترین دعوی اس وقت سامنے آیا تھا جب سنہ 2017 میں بھارتی اور چینی فوجیں بھارت، بھوٹان، چین کی بین الاقوامی سرحد کے ڈوکلام علاقے میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔یہ بات چین کی پپلز لبریشن آرمی کی جانب سے تیار کی جانے والی سڑک کے بعد سامنے آئی ہے۔ڈوکلام واقعہ کے بعد بھوٹان نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے حوالے سے کسی بھی طرح کی بات چیت میں شامل نہیں ہوا ہے اور وہ بھارت کے حمایت میں ہمیشہ سے اس موضوع پر ساتھ کھڑا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق ، چین اب بھوٹان کو جو پیکیج ڈیل پیش کررہا ہے ، وہ بیجنگ کی طرف سے تھمفو کو سفارتی تعلقات قائم کرنے اور پھر ڈوکلام خطے کا دعوی کرنے پر مجبور کرنے کی بولی ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر ڈی ایس مونی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ اس معاہدے کے تحت چین وسطی اور مشرقی بھوٹان میں اپنے دعوے کو چھوڑ کر ڈوکلام پر اپنا حق جمانے کا خواہشمند ہے۔
مونی نے کہا کہ چین بھوٹان کے مغرب میں واقع ڈوکلام پر دعوی کرنا چاہتا ہےکیونکہ چین اپنی حکمت عملی کے مطابق چمبی وادی پر قبضہ چاہتا ہے۔

یہ نئی دہلی کے لیے پریشانی کا سبب کیوں ہے؟

دراصل چمبی وادی بھارتی ریاست سکم، بھوٹان اور چین کے ہمالیہ کے جنوبی حصہ سے جڑی ہوئی ہے اور چین بھارت کے سلیگوری راہداری پر قبضہ کرنے کے لیے چمبی ڈوکلام کا استعمال کرسکتے ہیں۔سیلگوری راہداری بھارت کے نقشے میں ایک مرغی کی گردن جیسا علاقہ ہے، اس لیے اسے 'چیکین نیک' بھی کہتے ہیں اور یہ شمال مشرقی بھارت کو باقی بھارت سے جوڑتا ہے۔

مونی نےکہا کہ ان کا (چین کا ) خیال ہے کہ وہ بھوٹان پر سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے ڈباؤ ڈالے گا اور اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرے گا کہ نئی دہلی کے ساتھ تھفو کے کیسے تعلقات ہیں۔"بھوٹان واحد جنوبی ایشین ملک ہے جس کے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔"

اسی کے ساتھ ہی ، منی نے کہا کہ بھوٹانی چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی طرف راغب ہوسکتے ہیں لیکن وہ بھارت چین تنازعہ کے درمیان کسی بھی قسم کی مداخلت کرنے سے پرہیز کرے گا۔

مونی کے مطابق اگر چہ عالمی طاقتیں خاص طور امریکہ بیجنگ کے منصوبے کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتا آیا ہے، لیکن بھارت بھوٹان کو چین کے ساتھ اپنے تازہ ترین معاملہ کو دوسروں کی مداخلت کے بغیر حل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔

چین نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے سرحد سے متصل مشرقی بھوٹان میں ساکٹینگ وائلڈ لائف سینکچری پر دعوی کیا ہے اور اس سرحدی تنازعہ کو سلجھانے کے لیے بیچنگ تھمفو کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے 'پیکیج ڈیل' کی بات کی ہے۔

منگل کے روز چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے میڈیا کانفرنس میں کہا کہ چین نے جنوبی ایشیاء کے چھوٹے ممالک کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک پیکج ڈیل کی پیش کش کی ہے۔

وانگ نے اپنے بیان میں کہا کہ چین نے شروع سے ہی اپنے نقطہ نظر کو مستقل اور واضح رکھا ہے۔چین اور بھوٹان کے مابین سرحد کی حدبندی ابھی باقی ہے اور سرحد کے وسط، مشرقی اور مغربی حصہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین نے ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک تجاویز پیش کی ہے۔چین کثیرالجہتی فورمز میں اس طرح کے تنازعات پر بات چیت کرنے کے خلاف ہے اور چین اس مسئلے کے سلسلے میں متعلقہ فریقوں کے ساتھ بات کرنے میں یقین رکھتا ہے۔

وانگ کا یہ جواب گلوبل اینوائرمنٹ فیسیلٹی(جی ای ایف) کے ذریعہ ساکٹنگ وائلڈ لائف سینکچرری کو تیار کرنے پر چین کے طرف سے اعتراضات ظاہر کرنے کے سوالات کے بعد سامنے آیا ہے۔جی ای ایف ایسی تنظیم ہے جس نے 183 ممالک کو بین الاقوامی اداروں، سول سوسائٹی تنظیموں اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر عالمی ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے متحد کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چین ایسے علاقے پر دعوی کر رہا ہے جو اس کے بین الاقوامی سرحد کے مطابق نہیں ہے، بلکہ یہ علاقہ بھارت اور بھوٹان کی سرحد پر موجود ہے۔یہ معاملہ اس وقت بھی سامنے آیا تھا جب گزشتہ ماہ لداخ میں بھارت اور چین سرحدی تنازعہ میں تناؤ کو ختم کرنے کے لیے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔

مشرقی بھوٹان کی سرحد پر واقع ساکٹینگ وائلڈ لائف سیکنچرری بھارت کی ریاست ارناوچل پردیش سے متصل ہے اور چین اسی علاقے پر دعوی کر رہا ہے،اسے جنوبی تبت بھی کہا جاتا ہے۔

بھوٹان اور چین کے درمیان کوئی سرکاری سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔سنہ 1951 میں چین کے تبت پر قبضہ کرنے کے بعد چین اور بھوٹان کے پڑوسی ممالک بنن گئے تھے، ان دونوں ممالک نے سنہ 1984 کے بعد سے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے 24 مذاکرات کیے ہیں۔

وہیں بھارت اور بھوٹان کے درمیان گہرے سفارتی تعلقات ہیں، نئی دہلی تمفو کے اہم ترقیاتی امدادی شراکت دار ہے۔بھارت بھوٹان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار کا بھی کردار ادا کرتا ہے۔

بھوٹان میں بیجنگ کا تازہ ترین دعوی اس وقت سامنے آیا تھا جب سنہ 2017 میں بھارتی اور چینی فوجیں بھارت، بھوٹان، چین کی بین الاقوامی سرحد کے ڈوکلام علاقے میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔یہ بات چین کی پپلز لبریشن آرمی کی جانب سے تیار کی جانے والی سڑک کے بعد سامنے آئی ہے۔ڈوکلام واقعہ کے بعد بھوٹان نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے حوالے سے کسی بھی طرح کی بات چیت میں شامل نہیں ہوا ہے اور وہ بھارت کے حمایت میں ہمیشہ سے اس موضوع پر ساتھ کھڑا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق ، چین اب بھوٹان کو جو پیکیج ڈیل پیش کررہا ہے ، وہ بیجنگ کی طرف سے تھمفو کو سفارتی تعلقات قائم کرنے اور پھر ڈوکلام خطے کا دعوی کرنے پر مجبور کرنے کی بولی ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر ڈی ایس مونی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ اس معاہدے کے تحت چین وسطی اور مشرقی بھوٹان میں اپنے دعوے کو چھوڑ کر ڈوکلام پر اپنا حق جمانے کا خواہشمند ہے۔
مونی نے کہا کہ چین بھوٹان کے مغرب میں واقع ڈوکلام پر دعوی کرنا چاہتا ہےکیونکہ چین اپنی حکمت عملی کے مطابق چمبی وادی پر قبضہ چاہتا ہے۔

یہ نئی دہلی کے لیے پریشانی کا سبب کیوں ہے؟

دراصل چمبی وادی بھارتی ریاست سکم، بھوٹان اور چین کے ہمالیہ کے جنوبی حصہ سے جڑی ہوئی ہے اور چین بھارت کے سلیگوری راہداری پر قبضہ کرنے کے لیے چمبی ڈوکلام کا استعمال کرسکتے ہیں۔سیلگوری راہداری بھارت کے نقشے میں ایک مرغی کی گردن جیسا علاقہ ہے، اس لیے اسے 'چیکین نیک' بھی کہتے ہیں اور یہ شمال مشرقی بھارت کو باقی بھارت سے جوڑتا ہے۔

مونی نےکہا کہ ان کا (چین کا ) خیال ہے کہ وہ بھوٹان پر سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے ڈباؤ ڈالے گا اور اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرے گا کہ نئی دہلی کے ساتھ تھفو کے کیسے تعلقات ہیں۔"بھوٹان واحد جنوبی ایشین ملک ہے جس کے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔"

اسی کے ساتھ ہی ، منی نے کہا کہ بھوٹانی چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی طرف راغب ہوسکتے ہیں لیکن وہ بھارت چین تنازعہ کے درمیان کسی بھی قسم کی مداخلت کرنے سے پرہیز کرے گا۔

مونی کے مطابق اگر چہ عالمی طاقتیں خاص طور امریکہ بیجنگ کے منصوبے کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتا آیا ہے، لیکن بھارت بھوٹان کو چین کے ساتھ اپنے تازہ ترین معاملہ کو دوسروں کی مداخلت کے بغیر حل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.