حجاب معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ Karnataka High court verdict on Hijab حیران کن نہیں ہے، تین ججوں کی بینچ نے پہلے ہی دن یہ آڈر دیا تھا کہ فی الحال حجاب کی اجازت تعلیمی اداروں میں نہیں ہوگی۔ اسی سے عدالت کا رخ صاف ہوگیا تھا۔
عام طور سے ایسے موقع پر عدالت 'جوں کا توں صورتحال' برقرار رکھنےکا حکم دیتی ہے لیکن کورٹ نے عدالتی روایت سے ہٹ کر نیا فرمان جاری کیا، جس سے اس کے ارادے صاف ہو گئے تھے۔ Verdict of Karnataka High Court on Hijab Ban is not Surprising
بحث مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔ شاید اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج کا انتظار تھا، اگر چہ یہ نتیجہ بھی خلاف توقع ہے اور بہت سے لوگوں کے لیے سمجھ سے پرے ہے لیکن اس سے فرقہ پرست طاقتوں کو ایک نیا جوش مل گیا ہے۔
ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران حجاب پر پابندی کے خلاف عرضیوں کی پیروی کرنے والے وکلاء نے بڑی محنت کی اور عدالت کے سامنے حجاب کے ضروری ہونے سے متعلق سارے ثبوت و شواہد پیش کئے۔ عدالت کے سامنے قرآن کریم کا مستند ترجمہ پیش کیا گیا۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 اور سورہ نور کی آیت نمبر 31 کا حوالہ دیا گیا، جن میں واضح طور پر چہرے پر گھونگھٹ ڈالنے اور سینہ پر دوپٹہ ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے قرآن کا حکم ماننا فرض اور ضروری ہے، اس کے بغیر چارہ کار نہیں ہے، اسی طرح عدالت کے سامنے بخاری و مسلم کے مترجم نسخے پیش کئے گئے اور ان روایتوں کی نشاندہی کی گئی جن سے پردہ کے لازم ہونے کا ثبوت ملتا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ عدالت نے قرآن و حدیث کے واضح احکام کو نظر انداز کردیا۔
دوسری طرف حکومت کی نمائندگی کرنے والا ایڈوکیٹ جنرل مسلسل ایک ہی رٹ لگاتے رہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے، اپنے دعوے کی دلیل میں انہوں نے کوئی ثبوت بھی نہیں پیش کیا، لیکن عدالت نے اس کو قبول کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ عدالت میں صرف دلیل اور حجت کام آتی ہے لیکن ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ثبوت و شواہد کو بالکل نظر انداز کر دیا کورٹ کے اس فیصلہ سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انصاف پسندوں کو بہت مایوسی ہوئی ہے اور عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال کھڑا ہو گیا ہے!
یہ معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے لیکن اس نے سماعت سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ پہلے ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے دیا جائے اب جب کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے، امید کہ سُپریم کورٹ اس پر جلد از جلد سماعت شروع کرے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سُپریم کورٹ میں مضبوط پیروی کی جائے اور اس کے سامنے تمام ثبوت و شواہد پیش کئے جائیں، سُپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک انتظار کیا جائے اور ٹی وی چیلنز میں غیر ضروری بحث و مباحثہ سے اجتناب کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ، ملت کے اہل ثروت اور مخیر حضرات لڑکیوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی جانب فوراً توجہ دیں نیز مسلم خواتین اپنے گھر کے اندر اور باہر پردہ کے اہتمام کو یقینی بنائیں۔
اس فیصلہ کا مطلب صاف ہے کہ،اب شریعت میں عدالتوں کی مداخلت شروع ہو گئی ہے،آج حجاب کا مسئلہ ہے،کل اذان کا مسئلہ ہوگا اور پھر مسجد کا مسئلہ آئے گا اور اس کے بعد نکاح و طلاق کا مسئلہ پھر یکساں سول کوڈ کا اعلان ہوگا۔ دھیرے دھیرے یہ مسئلہ وہیں تک پہنچے گا۔ اس لیے ہمیں اب شرعی مسائل کو عدالت میں لے جانے سے گریز کرنا ہوگا، اس لئے کہ اب عدالتیں بھی بابری مسجد کی طرح فیصلہ سنا سکتی ہیں۔ اس لیے اب عدالتوں پر زیادہ پر بھروسہ کرنے کے بجائے سیاسی اعتبار سے اپنی طاقت کو مضبوط کیا جائے(سیاسی طاقت اور سیاسی پارٹی کا فرق ملحوظ رہے) اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیا جائے۔ پنچایتی الیکشن سے لے کر پارلیمنٹ تک اپنی نمائندگی بڑھانے کی کوشش کی جائے، ہمیں اس سلسلہ میں ملت کے اندر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اسی کے ساتھ ساتھ اپنی حکمت تبدیل کرنی ہوگی، نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے نئے طور طریقے اختیار کرنے پڑیں گے۔
(مضمون نگار دارالعلوم ندوة العلماء، لکھنؤ میں استاذ ہیں۔ انکے خیالات کے ساتھ ادارے کا اتفاق ضروری نہیں)