حیدرآباد: زبان وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے خبریں سفر کرتی ہیں اور جب زبان کسی مخصوص مذہب کی عینک سے منسلک ہوتی ہے تو پھر یہ معلومات کے بہاؤ کو نہ صرف محدود کرتی ہے بلکہ مواد کی صداقت کو کافی حد تک مجروح بھی کرتی ہے۔ دنیا میں ہزاروں زبانیں معلومات کو شیئر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ جس میں معلومات سب سے اہم ہوتی ہیں اور اس میں زبان ایک وسیلے کا کردار ادا کرتی ہے، اگر اس وسیلے کو سرخ، سبز یا زعفرانی رنگ سے رنگ دیا گیا ہو تو پھر معلومات کی ساکھ بھی مجروح ہو جاتی ہے۔ تنقیدی طور پر کسی بھی مواد یا کنٹنٹ کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ معلومات کتنی قابل اعتماد ہیں۔ اس کی اعتباریت ہی زیادہ تر سامعین یا قارئین تک رسائی کی ضمانت دیتا ہے۔ Role of journalists
13 نومبر 2022 بروز اتوار کو ملک بھر سے پیشۂ صحافت سے حال و ماضی میں جڑی مشہور و معروف شخصیات حیدرآباد میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں منعقد ایک عالمی کانفرنس میں شریک ہوئیں۔ یہ عالمی کانفرس اردو صحافت کے 200 سال مکمل ہونے کے پس منظر میں منعقد کی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں مندوبین کی غالب رائے تھی کہ اردو صحافت کو مذہب کے آئینے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔
زیادہ تر شرکاء کا تعلق بنیادی طور پر غیر اردو زبانوں سے تھا جنھوں نے اس بارے میں بات کی کہ کس طرح اردو صحافت دوسری زبانوں کی صحافت سے مماثلت رکھتی ہے۔ انہوں نے صحیح معنوں میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اردو ایک ایسی زبان ہے جس کا تعلق ہر ایک سے ہے نہ کہ صرف مسلمانوں سے۔ انہوں نے اس بات کو تاریخی اعتبار سے اس حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے ثابت بھی کیا کہ اس وقت برطانوی بھارت کے دارالحکومت کولکتہ کے ایک ہندو نے ملک کا پہلا اردو اخبار شروع کیا اور پھر بعد میں اسی شخص نے کلکتہ سے ہی ہندی اور فارسی میں اخبارات لانچ کئے۔
مندوبین سے توقع کی تھی کہ وہ مختلف موضوعات پر گفتگو کریں گے، زیادہ تر تھیمز اردو صحافت کے مستقبل، چیلنجز اور مالیاتی عملداری سے متعلق تھیں۔ کمرشیل عملداری کے تناظر میں اردو متن کی اہمیت پر بی جے پی کے سابق ممبر پارلیمنٹ سوپن داس گپتا نے کہا کہ زبان کی اثر پذیری اسکے متن سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوتی ہے۔
اس کانفرنس میں ممتاز صحافی، ادباء، ماہرین تعلیم اور زبان دان ملک کے مختلف شہروں سے آئے تھے جن میں دہلی سے وابستہ شخصیات کی غالب تعداد شامل تھی۔ سنجے کپور، سری نواسن جین، ستیش جیکب، راہول دیو، پنکج پچوری، سمیرا خان، راہل سریواستو، اور آنند وجے کے علاوہ بھی میڈیا کئی اہم شخصیات ایک جگہ پر نظر آئیں جنھوں نے اردو صحافت کی 200 سالہ تاریخ پر اپنے خیالات کا اشتراک کیا۔چونکہ اردو صحافت اپنے 200 سالہ سفر کی یاد منا رہی ہے، جس کے پیش نظر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی MAANU اور ان کے شراکت داروں نے مختلف تھیمز پر مبنی پروگرام منعقد کیے جس پر صحافیوں نے ان کے بارے میں بات کی۔ سامعین میں صحافت کے طلباء اور دیگر فیکلٹی کے ارکان بھی شامل تھے۔
افتتاحی دن کی تقریبات میں اہم ایک اوپن ایئر مزاکرہ تھا جو شام کے وقت یونیورسٹی کی مین بلڈنگ کے سامنے واقع لان مین منعقد کیا گیا۔ اس تقریب میں این ڈی ٹی وی سے وابستہ سرکردہ صحافی سری نواسن جین نے، میڈیا کس طرح امن اور مکالمہ کو فروغ دے سکتا ہے، کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ میڈیا امن کو فروغ نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ سچائی کو بتانے کے لیے موجود ہے، چاہے یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو، یونیورسٹی کے لان میں موجود مہمان اور طلبا نے جین کے تبصرہ کی تعریف کی۔ ایک ہندی صحافی نے جین کے نقطہ نظر کا جواب دیا، جس نے یوکرینی خواتین کی ناکافی کوریج کے لیے میڈیا کی غیر ذمہ داری کا الزام لگاتے ہوئے پوری گفتگو کو پٹری سے اتار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:
International Conference on Urdu Journalism اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام
Arifa Khanam Sherwani On Urdu Journalism اردو کو مسلمان بنا کر ستایا جا رہا ہے، عارفہ خانم شیروانی
اسی بیچ ٹی وی 9 بھارت ورش کی اینکر سمیرا خان نے کہا کہ انھوں نے ذاتی طور پر یوکرائن کی خواتین اور بچوں پر مختلف کہانیاں پروڈیوس کی ہیں، اس درمیان ایک اور میزبان پنکج پچوری نے شاندار طریقے سے ایک شعر سے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ ’داغ چہرے پر ہے اور ہم آئینہ صاف کرنے کی کوشش کر رہےہیں‘۔ پروگرام کا اختتام اس اہم سوال پر ہوا کہ کیا میڈیا کو امن کے فروغ کے طور پر کام کرنا چاہیے یا بس ایک نیوز میکرز کے طور پر ہی باقی رہنا چاہیے۔
چونکہ صحافت کے بنیادی اصولوں پر اختلاف تھا اس لیے سامعین نے لان کو پریشان کن حال میں ہی چھوڑ دیا۔ اس تنازع نے ان دو لائینوں کو دھندلا کردیا ہے کہ ابلاغ عامہ کے پیشہ ور افراد کو کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ کیا اسکا کام کسی ترقیاتی شعبے جیسے غیر سرکاری تنظیموں ( این جی اوز) جیسا ہونا چاہئے جس میں ایک مخصوص ہدف کر لیکر کام کیا جاتا ہے یا کلی طور ایک صحافتی کیریئر کو اختیار کرنا چاہئے جس میں حقائق کو سامنے لانا ہی مطمح نظر ہو چاہے وہ کسی کی بھی حمایت مین مخالفت میں ہو۔
مثال کے طور پر ایک این جی او کے لیے دستاویز لکھتے وقت، امن کو فروغ دینا اور عدم تشدد کی حمایت کرنا ایک ایجنڈا ہو سکتا ہے۔ تاہم صحافت زمینی حقیقت کی نمائندگی اور سچائی کی عکاسی کرتا ہے، چاہے وہ حقیقت کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہو، صحافی غیر جانبدار ہوتے ہیں جبکہ ترقیاتی شعبے میں کام کرنے والے صحافی این جی اوز سے وابستہ افراد امن، محبت یا کسی بھی ایسے ایجنڈے پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔