حیدرآباد: موسمیاتی تبدیلی اور صحت عامہ پر اس کے اثرات ایک ایسا موضوع بننے لگا ہے جس کی جانب میڈیا کی توجہ مرکوز ہونے لگی ہے۔ میڈیا ادارے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپا رہے ہیں کہ موحولیات کا موضوع کسی بھی دوسرے بڑے بیٹ کی طرح وسیع کوریج کا متقاضی ہے یا نہیں، کیونکہ ابھی تک یہ موضوع عوامی دلچسپی کا مرکز نہیں بن پا رہا ہے۔ شعبہ صحت نے کسی نہ کسی طرح اپنی جگہ بنا لی ہے، خاص طور پر وبائی امراض کے بعد، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں نے ابھی تک میڈیا کو اس حد تک متاثر نہیں کیا ہے کہ وہ اس کے پیچھے ہی لگ جائے۔
گزشتہ ماہ صنعتی شہر ممبئی میں ایک ریلی کے دوران ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی اموات شاید ہی کوئی بڑی کہانی ہو۔ ہم نے ابھی تک ہیٹ اسٹروک کو سن اسٹروک کی متبادل اصطلاح کے طور پر نہیں اپنایا ہے، جسے میڈیا میں اب بھی گرمی سے مرنے والے شخص کے لیے ایک لفظ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گرمی کی لہروں یا ہیٹ ویوز کو اب بھی ایک سنگین تشویش کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ شدید گرمی کے حالات سے گزرتے ہوئے مشکل سے ہی ایسے حالات میں اختیار کی جانے والی تدابیر کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ جب تک بڑے پیمانے پر میڈیا کی رسائی اور احساس دلانے کی مہم نہیں چلائی جاتی، لوگ ضرورت کے مطابق ہیٹ ویو سے بنرد آزما نہیں ہوسکتے۔
مشرق وسطیٰ سے آنے والی گرمی کی لہریں جو بحر ہند کو گرم کرتی ہیں اکثر موسمیاتی ماہرین کی نیندیں اڑاتی ہیں،کیونکہ یہ سمندر دنیا کے گرم ترین سمندروں میں سے ایک ہے، جس کے اثرات ہر ہندوستانی پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ بحر ہند مانسون کا تعین کرتا ہے، لیکن بحرالکاہل سے آنے والی ہوائیں ہندوستان کے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ اس میں بحر ہند کی گرم ہواؤں کو ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، اس طرح مانسون پر اثر پڑتا ہے۔
بحر ہند کی وجہ سے گرمی کی لہریں ایک خاص حد سے آگے بڑھنے پر لوگوں کو ہلاک کرنے کا رجحان رکھتی ہیں۔ تاہم، قبل از وقت انتباہی نظام اموات کی شرح کو کم کر سکتا ہے، حالانکہ شرح اموات 2015 سے پہلے ہی کم ہے۔ سائنسدانوں اور ماہرین کے اشتراک سے حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ خطرات سے دوچار لوگوں اور بستیوں کو پہلے سے تیار کیا جائے تاکہ وہ خطرات کا مقابلہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں کئی ریاستوں نے ہیٹ ویو ایکشن پلان یا ایچ اے پی تیار کیا ہے جس میں احمد آباد نے جنوبی ایشیا میں پہلے ہی یہ پلان تیار کرنے میں سبقت حاصل کی ہے۔
ہیٹ ویو ایکشن پلان کے پیش نظر، گرمی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ایک قومی حد کی ضرورت ہے۔ خواتین، بچے اور 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگ خاص طور پر گرمی کا شکار ہوتے ہیں۔ خواتین بنیادی طور پر خطرے میں ہیں کیونکہ وہ سفر کے دوران پانی کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ انہیں ڈر رہتا ہے کہ انہیں بیت الخلا کا استعمال نہ کرنا پڑے۔ آؤٹ ڈور ورکرز میں، کسان گرمی کی لہروں کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ دیر تک گرمی میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ شدید گرمی کی لہروں نے آؤٹ ڈور ورکرز سے 220 بلین گھنٹے کام چھین لیا ہے، جس میں 23 ملین ملازمتیں بنتی ہیں، جو کہ 20 سالوں میں مزدوری کا اوسط نقصان ہے۔ اگلے 7 سالوں میں کام کے اوقات کار کے مجموعی نقصان میں 25 فیصد اضافہ ہونے والا ہے۔ پیرس معاہدے کے آرٹیکل 8 کے مطابق شدید گرمی کی لہروں سے ہونے والا نقصان اور نقصان معاوضے کے لیے اہل نہیں ہے۔ گرمی کی لہر کے نتیجے میں مرنے والے افراد معاوضے کے حقدار نہیں ہیں۔ گرمی سے ہونے والی اموات اور زخمیوں کی تلافی اس وقت تک نہیں کی جائے گی جب تک کہ ہیٹ ویوز کو قومی آفت قرار نہیں دیا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں گرمی کے نئے ریکارڈ قائم، 23 ممالک میں پارہ 50 ڈگری سے متجاوز
موسمیاتی تبدیلی نے بارشوں اور برف باری کے انداز کو بھی متاثر کیا ہے۔ وہ علاقے جو پہلے خشک ہوتے تھے اور اس کے نتیجے میں خشک سالی ہوتی تھی وہاں سیلاب آرہے ہیں اور وہ علاقے جن میں زیادہ سے زیادہ بارشیں ہوتی تھیں خشک ہو رہے ہیں۔ آندھرا پردیش کے چتور، تروپتی جیسے خشک علاقوں میں سیلاب آیا ہے، جب کہ کبھی کبھی جھارکھنڈ، بہار اور یوپی سے خشک سالی کی خبریں آتی ہیں۔ سیلاب، آسمانی بجلی اور گرج چمک ایک خبر بن چکی ہے۔ آسمانی بجلی گرنے اور گرج چمک سے ہونے والی اموات بھی ایک نیا واقعہ ہے۔ بجلی گرنے اور گرج چمک کے ساتھ تقریباً 3000 لوگوں کی جانیں تلف ہونے کی اطلاعات ہیں۔ برف باری اور اس کے نتیجے میں برفانی تودے گرنے کے واقعہ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ برفباری کے اگلے ہی دن برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے جس سے کئی علاقے زیر آب آجاتے ہیں۔ برف باری کے اوقات فروری اور مارچ میں منتقل ہو گئے ہیں جب نومبر اور دسمبر برفباری ہوا کرتی تھی۔
موسمیاتی تبدیلی کا ایک اور پہلو جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگ ہے، جس نے جانوروں اور پرندوں کو ایسی جگہوں پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جنہوں نے پہلے کبھی جنگل کی آگ کا تجربہ نہیں کیا تھا، یہ جانور اور پرندے آگ میں بھسم ہورہے ہیں۔مارچ کے مہینے میں جنگل میں لگنے والی آگ اس وقت زیادہ تباہ کن ہوتی ہے جب پرندے مونسون سے پہلے اپنی افزائش میں مصروف ہوتے ہیں، اور جنگل میں لگنے والی آگ ان کو تباہ کر دیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گوا جیسی جگہوں پر جنگل میں آگ لگ گئی تھی ۔اسی طرح شمال مشرق کی وادی ڈزکو میں بھی جنگلات میں آگ لگنے کے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جو پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ اس نئے رجحان کو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں دیکھا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: Climatic Change In JK امسال اپریل سے ہی جموں وکشمیر میں شدید گرمی کا امکان، سونم لوٹس
نہ صرف جنگلات میں رہنے والوں کو خطرہ ہے بلکہ ساحلوں پر رہنے والے لوگ بھی ایک وجودی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ بہت سے جزیرے غائب ہو گئے اور سائنسدانوں نے ساحلی علاقوں میں مزید سیلاب کی پیش گوئی کی ہے۔ سمندر کے بڑھتے ہوئے پانی جزائر اور ساحلی علاقوں کے لیے ایک اہم خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مغربی ساحل پر سائیکلون کی پناہ گاہیں اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ کس طرح طوفان نے نئے راستے اپنائے ہیں اور یہ طوفان ان علاقوں میں آرہے ہیں جہاں پہلا ان کا گزر نہیں ہوتا تھا۔
حکومت سائنس دانوں اور ماہرین کے ساتھ مل کر مرحلہ وار بات چیت کر رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے کیسے نمٹا جائے۔ مسئلے سے نمٹنے کے بجائے حکومت اس امر پر توجہ مرکوز کررہی ہے کہ متاثرین کو کس طرح سے ان آفات سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار کیا جاسکے حالانکہ کئی ماہرین کا اس طرز عمل پر اختلاف بھی ہے۔ لوگوں کو ان مسائل سے نمٹنے کیلئے تیار کرنا ایک حل ہوسکتا ہے لیکن بنیادی مسئلے کو ایڈریس کرنا حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔