ETV Bharat / opinion

سربرینیکا قتلِ عام کے 25 سال! - نسل کُشی کے واقعات

عامر علی نے سربرینیکا قتل عام کے بارے میں اس آرٹیکل میں لکھا ہے کہ سنہ 1995 میں 11 اور 16 جولائی کے درمیان سربرینیکا قتلِ عام کو ہوئے 25 سال کا وقت گزر چکا ہے ۔ دوسری جنگِ عظیم، جس کے دوران یورپ نے 60 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کرنے والے نازی وحشت کا مشاہدہ کیا، کے بعد نسل کُشی کہلانے والا یہ پہلا اجتماعی قتلِ عام تھا۔ جب بھی سربرینیکا جیسی نسل کُشی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے ’’اب کے بعد کبھی نہیں‘‘ کے غیر مؤثر اجتناب کے الفاظ رسمی طور پر دہرائے جاتے ہیں لیکن ایسے واقعات بار بار پیش آتے رہتے ہیں۔خود سربرینیکا کا واقعہ بھی روانڈا کے توتسِس کی ہولناک نسل کُشی کے محض ایک سال بعد پیش آیا تھا، جسکے تحت سنہ 1994 کے اپریل اور جولائی کے درمیان 800,000 ہلاک ہوئے تھے، ۔

سربرینیکا قتلِ عام کے 25سال!
سربرینیکا قتلِ عام کے 25سال!
author img

By

Published : Jul 14, 2020, 12:38 PM IST

کیا ملوسیوِک جیسے مجرم راتوں کو آرام کی نیند سو بھی پاتے ہونگے؟

نسل کُشی کے واقعات حالانکہ پیش نہیں آنے چاہیئں لیکن کئی بار اس طرح کے واقعات یوں پیش آتے رہے کہ جب بین الاقوامی برادری بے بسی کے ساتھ دیکھتی رہی۔ سربرینیکا کے معاملے میں موجود رہی ڈچ پیس کیپنگ فورس یعنی قیامِ امن کیلئے ذمہ دار فورس فقط دیکھتی رہی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فورس 300 بوسنیائی مسلمانوں کو پناہ دینے میں ناکام ہوئی یہاں تک کہ ان مسلمانوں کو بعدازاں بوسنیا کے سرب فوجی جنرل رتکو ملڈک کی فورسز نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔سنہ 2017 میں ہیگ میں ایک عدالت (اپیلز کورٹ) نے ڈچ پیس کیپنگ فورس کو پناہ کی تلاش میں رہے ان 300 لوگوں کی جان بچانے میں ناکام رہنے کا مجرم ٹھہرایا۔

بلکہ ستم ظریفانہ طور پر سربرینیکا کو اقوامِ متحدہ نے ایک ’’محفوظ علاقہ‘‘ (سیف زون) قرار دیا تھا اور اور یہ سب ان 8000 بوسنیائی مسلمانوں کو بیٹھی بطخیں بنانے کیلئے تھا کہ جو بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔

نسل کُشی کے واقعات کے بارے میں تقریباََ اُسی طرح پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ جس طرح موسم کے بارے میں کی جاتی ہے۔ ہوا میں ایسے تنکے اڑتے جاسکتے ہیں کہ جو آنے والے وقت میںاجتماعی قتل کے واقعات کی سمت بتاسکتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح کہ جب روانڈا میں تشدد پھوٹنے ہی والا تھا کہ کنیڈا کے میجر جنرل رومیو ڈیلائر،جو روانڈا میں اقوامِ متحدہ کے اسسٹنس مشن (یو این اے ایم آئی آر) کے قائد تھے، انہوں نے اپنے بد ترین خوف کے بارے میں فوری پیغامات بھیجے تھے، تاہم عالمی برادری کی جانب سے ان پیغامات پر کوئی ردِ عمل نہیں آیا تھا۔

جب دنیا پوری طرح انٹرنیٹ کی سہولت سے متعارف نہیں تھی اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اپنی تخلیق میں بھی ابھی ایک دہائی کا عرصہ باقی تھا، اس وقت سنہ 1994 میں روانڈا میں نفرت پھیلانے کا کام نو تخلیق شدہ ریڈیو ٹیلی ویژن لبری ڈس ملی کولینز کے ذریعہ بہت موثر طریقے سے سرانجام دیا گیا۔ریڈیو کے ذریعہ توتیس کیلیے لفظ کاکروچ کا استعمال کرتے ہوئے 'کاکروچوں کو مار ڈالو' کے پیغام نشر کیے جاتے تھے۔اس نشریاتی ادارے کی بنیاد ڈالنے اور اسے رقومات فراہم کرنے والے شخص، فیلیسیئن کابوبا، کو حال ہی میں 84سال کی عمر میں پیرس سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ ایک فرضی شناخت کے ساتھ رہتے تھے۔

اگر اس طرح بڑھتی ہوئی نفرت ایک واضح اشارہ ہے تو پھر،اکثر و بیشتر، نفرت کا منبع بڑھتی ہوئی بہت ہی گندی قوم پرستی کا شیطانی چہرہ ہوسکتا ہے۔صرف ایک سلوبوڈان میلوسیوک کے کیریئر کو دیکھیں جو سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سربیا کے صدر تھے اور جنہیں سرب قوم پرستی کے علیٰحدہ ہوچکے جمہوریہ یوگوسلاویہ بھر میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں جاری کردہ تشدد،جسکی سربرینیکا سب سے بد ترین مثال ہے، کیلئے سب سے زیادہ ذمہ دار شخص تصور کیا جاتا ہے۔

سنہ 1980کی دہائی میں میلوسیوک کمیونسٹ پارٹی کے ایک عہدیدار تھے لیکن پھر انہیں لگا کہ سخت گیر سرب قوم پرستی کیریئر کی ترقی کی بہترین صورت ہے۔ملو سیوِک نے سنہ 1986 سے تیزی کے ساتھ یہ کہنا شروع کیا کہ یہ در اصل کوسؤو کے خود مختار علاقہ کی سربیائی آبادی ہے، جسے نسل کُشی کا خطرہ درپیش ہے۔کوسؤو میں اس سربیائی اقلیت کی موجودگی کیلئے سمجھے جانے والے خطرے سے گریٹر سربیا کا منصوبہ کھڑا کیا جائے گا۔ایسے میں وہ اپنے نسلی گروہ کی نسل کُشی کا خطرہ بتاتے ہوئے ایک ماحول بناتے ہیں جو حالانکہ مخالف گروہ کی نسل کُشی کی تیاری ہے۔

سنہ 1989 میں ملوسیوک سربیا کے صدر بنے، اس سال انہوں نے کوسؤو کے صوبہ کی خودمختاری ختم کرنے کا فیصلہ کیا، واضح رہے کہ کوسؤو کو سنہ 1974 میں خودمختاری دی جاچکی تھی۔ یہ باغی ہوئے جمہوریہ یوگوسلاویہ میں،جو 1990کی دہائی کے اوائل میں بھڑک اٹھا تھا، خوفناک تشدد کی فقط شروعات ہونے جارہی تھی۔

کوسوو میں ایک غیر متشدد ، سول نافرمانی کی تحریک چل رہی تھی ، جس کی قیادت بلقان میں ایک سچے گاندھی ، ابراہیم رگووا نے کی تھی ، جو بعد میں کوسوو کے صدر بن گئے اور جنہوں نے قبل ازیں پیرس میں رہنے کے دوران ادبی نظریہ ساز رولینڈ بارتھز کے تحت تعلیم حاصل کی تھی۔ملوسیوِک کو اس نوعیت کی تحریک کی موجودگی تک اس خطے سے دہشت گردی کی کالی چھایا آنے کا رونا رونے سے نہیں روک سکی جو ان کے لئے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور نسل کُشی کی صورت میں مزید جبر کا آغاز کرنے کا بہانہ اور جواز بن گیا۔

واضح اشاروں کے موجود ہونے کے باوجود جنکی بنا پر معقول ادراک رکھنے والا کوئی بھی مشاہد ان کے امکان کو سمجھ سکتا ہے، یہ دیکھنا تکلیف دہ ہے کہ نسل کُشی کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کیلئے سیاسی عزم کی کمی ہے۔نسل کُشی کی پیش گوئی پہلے مذکورہ نفرت کے عروج کے ساتھ ساتھ،جیسا کہ فرانسیسی مورخ اور ماہرِ سیاسیات جیکیوس سیمیلِن نے اپنی کتاب پیوریفائی اینڈ ڈیسٹرائے:دی پولیٹکل یوزز آف میساکر اینڈ جینوسائڈ میں جرمن ماہرِ سماجیات ایلزابتھ نولینیومن کا حوالہ دیتے ہوئے، ’’خاموشی کا سرپل‘‘ (سپائرل آف سائلنس) کہا ہے۔اس سے لوگوں کی اُس بڑی تعداد کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ جو خود نفرت انگیز تقریر کے مرتکب نہ ہوں، بلکہ نفرت پھیلانے والوں کے ساتھ متفق بھی نہ ہوں ،البتہ آواز اٹھانے اور اس سب کی مذمت کرنے میں ناکام ہوتے ہوں۔ایسے لوگ خود اپنے گرہوں میں الگ تھلگ کردئے جانے کے خوف سے عتاب زدہ گروہوں کے ساتھ ہمدردی تک کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔

20 ویں صدی میں نسل کُشی کی کہانی افسردہ کردینے والی رہی ہے۔ نسل کُشی کی حرکات نے بین الاقوامی قانونی نظام کے اُن اصولوں کو جنم دیا ہے جو خود اس طرح کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہتے ہوئے بعض اوقات بڑے طویل عرصہ کے بعد مجرموں کو پکڑ پاتے ہیں۔تاہم، گرفتار کر کے عدالت میں لائے جانے والے ہر فلیسئن کبوگا،سلوبوڈان ملوسیوِک اور راٹکو ملاڈِک کیلئے، کئی مجرم ہیں جو اخیر تک اپنی زندگیاں جیتے ہیں اور اس (سزا) سے بچ جاتے ہیں۔البتہ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا وہ راتوں کو سو بھی پاتے ہونگے؟

کیا ملوسیوِک جیسے مجرم راتوں کو آرام کی نیند سو بھی پاتے ہونگے؟

نسل کُشی کے واقعات حالانکہ پیش نہیں آنے چاہیئں لیکن کئی بار اس طرح کے واقعات یوں پیش آتے رہے کہ جب بین الاقوامی برادری بے بسی کے ساتھ دیکھتی رہی۔ سربرینیکا کے معاملے میں موجود رہی ڈچ پیس کیپنگ فورس یعنی قیامِ امن کیلئے ذمہ دار فورس فقط دیکھتی رہی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فورس 300 بوسنیائی مسلمانوں کو پناہ دینے میں ناکام ہوئی یہاں تک کہ ان مسلمانوں کو بعدازاں بوسنیا کے سرب فوجی جنرل رتکو ملڈک کی فورسز نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔سنہ 2017 میں ہیگ میں ایک عدالت (اپیلز کورٹ) نے ڈچ پیس کیپنگ فورس کو پناہ کی تلاش میں رہے ان 300 لوگوں کی جان بچانے میں ناکام رہنے کا مجرم ٹھہرایا۔

بلکہ ستم ظریفانہ طور پر سربرینیکا کو اقوامِ متحدہ نے ایک ’’محفوظ علاقہ‘‘ (سیف زون) قرار دیا تھا اور اور یہ سب ان 8000 بوسنیائی مسلمانوں کو بیٹھی بطخیں بنانے کیلئے تھا کہ جو بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔

نسل کُشی کے واقعات کے بارے میں تقریباََ اُسی طرح پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ جس طرح موسم کے بارے میں کی جاتی ہے۔ ہوا میں ایسے تنکے اڑتے جاسکتے ہیں کہ جو آنے والے وقت میںاجتماعی قتل کے واقعات کی سمت بتاسکتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح کہ جب روانڈا میں تشدد پھوٹنے ہی والا تھا کہ کنیڈا کے میجر جنرل رومیو ڈیلائر،جو روانڈا میں اقوامِ متحدہ کے اسسٹنس مشن (یو این اے ایم آئی آر) کے قائد تھے، انہوں نے اپنے بد ترین خوف کے بارے میں فوری پیغامات بھیجے تھے، تاہم عالمی برادری کی جانب سے ان پیغامات پر کوئی ردِ عمل نہیں آیا تھا۔

جب دنیا پوری طرح انٹرنیٹ کی سہولت سے متعارف نہیں تھی اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم اپنی تخلیق میں بھی ابھی ایک دہائی کا عرصہ باقی تھا، اس وقت سنہ 1994 میں روانڈا میں نفرت پھیلانے کا کام نو تخلیق شدہ ریڈیو ٹیلی ویژن لبری ڈس ملی کولینز کے ذریعہ بہت موثر طریقے سے سرانجام دیا گیا۔ریڈیو کے ذریعہ توتیس کیلیے لفظ کاکروچ کا استعمال کرتے ہوئے 'کاکروچوں کو مار ڈالو' کے پیغام نشر کیے جاتے تھے۔اس نشریاتی ادارے کی بنیاد ڈالنے اور اسے رقومات فراہم کرنے والے شخص، فیلیسیئن کابوبا، کو حال ہی میں 84سال کی عمر میں پیرس سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ ایک فرضی شناخت کے ساتھ رہتے تھے۔

اگر اس طرح بڑھتی ہوئی نفرت ایک واضح اشارہ ہے تو پھر،اکثر و بیشتر، نفرت کا منبع بڑھتی ہوئی بہت ہی گندی قوم پرستی کا شیطانی چہرہ ہوسکتا ہے۔صرف ایک سلوبوڈان میلوسیوک کے کیریئر کو دیکھیں جو سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سربیا کے صدر تھے اور جنہیں سرب قوم پرستی کے علیٰحدہ ہوچکے جمہوریہ یوگوسلاویہ بھر میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں جاری کردہ تشدد،جسکی سربرینیکا سب سے بد ترین مثال ہے، کیلئے سب سے زیادہ ذمہ دار شخص تصور کیا جاتا ہے۔

سنہ 1980کی دہائی میں میلوسیوک کمیونسٹ پارٹی کے ایک عہدیدار تھے لیکن پھر انہیں لگا کہ سخت گیر سرب قوم پرستی کیریئر کی ترقی کی بہترین صورت ہے۔ملو سیوِک نے سنہ 1986 سے تیزی کے ساتھ یہ کہنا شروع کیا کہ یہ در اصل کوسؤو کے خود مختار علاقہ کی سربیائی آبادی ہے، جسے نسل کُشی کا خطرہ درپیش ہے۔کوسؤو میں اس سربیائی اقلیت کی موجودگی کیلئے سمجھے جانے والے خطرے سے گریٹر سربیا کا منصوبہ کھڑا کیا جائے گا۔ایسے میں وہ اپنے نسلی گروہ کی نسل کُشی کا خطرہ بتاتے ہوئے ایک ماحول بناتے ہیں جو حالانکہ مخالف گروہ کی نسل کُشی کی تیاری ہے۔

سنہ 1989 میں ملوسیوک سربیا کے صدر بنے، اس سال انہوں نے کوسؤو کے صوبہ کی خودمختاری ختم کرنے کا فیصلہ کیا، واضح رہے کہ کوسؤو کو سنہ 1974 میں خودمختاری دی جاچکی تھی۔ یہ باغی ہوئے جمہوریہ یوگوسلاویہ میں،جو 1990کی دہائی کے اوائل میں بھڑک اٹھا تھا، خوفناک تشدد کی فقط شروعات ہونے جارہی تھی۔

کوسوو میں ایک غیر متشدد ، سول نافرمانی کی تحریک چل رہی تھی ، جس کی قیادت بلقان میں ایک سچے گاندھی ، ابراہیم رگووا نے کی تھی ، جو بعد میں کوسوو کے صدر بن گئے اور جنہوں نے قبل ازیں پیرس میں رہنے کے دوران ادبی نظریہ ساز رولینڈ بارتھز کے تحت تعلیم حاصل کی تھی۔ملوسیوِک کو اس نوعیت کی تحریک کی موجودگی تک اس خطے سے دہشت گردی کی کالی چھایا آنے کا رونا رونے سے نہیں روک سکی جو ان کے لئے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور نسل کُشی کی صورت میں مزید جبر کا آغاز کرنے کا بہانہ اور جواز بن گیا۔

واضح اشاروں کے موجود ہونے کے باوجود جنکی بنا پر معقول ادراک رکھنے والا کوئی بھی مشاہد ان کے امکان کو سمجھ سکتا ہے، یہ دیکھنا تکلیف دہ ہے کہ نسل کُشی کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کیلئے سیاسی عزم کی کمی ہے۔نسل کُشی کی پیش گوئی پہلے مذکورہ نفرت کے عروج کے ساتھ ساتھ،جیسا کہ فرانسیسی مورخ اور ماہرِ سیاسیات جیکیوس سیمیلِن نے اپنی کتاب پیوریفائی اینڈ ڈیسٹرائے:دی پولیٹکل یوزز آف میساکر اینڈ جینوسائڈ میں جرمن ماہرِ سماجیات ایلزابتھ نولینیومن کا حوالہ دیتے ہوئے، ’’خاموشی کا سرپل‘‘ (سپائرل آف سائلنس) کہا ہے۔اس سے لوگوں کی اُس بڑی تعداد کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ جو خود نفرت انگیز تقریر کے مرتکب نہ ہوں، بلکہ نفرت پھیلانے والوں کے ساتھ متفق بھی نہ ہوں ،البتہ آواز اٹھانے اور اس سب کی مذمت کرنے میں ناکام ہوتے ہوں۔ایسے لوگ خود اپنے گرہوں میں الگ تھلگ کردئے جانے کے خوف سے عتاب زدہ گروہوں کے ساتھ ہمدردی تک کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔

20 ویں صدی میں نسل کُشی کی کہانی افسردہ کردینے والی رہی ہے۔ نسل کُشی کی حرکات نے بین الاقوامی قانونی نظام کے اُن اصولوں کو جنم دیا ہے جو خود اس طرح کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہتے ہوئے بعض اوقات بڑے طویل عرصہ کے بعد مجرموں کو پکڑ پاتے ہیں۔تاہم، گرفتار کر کے عدالت میں لائے جانے والے ہر فلیسئن کبوگا،سلوبوڈان ملوسیوِک اور راٹکو ملاڈِک کیلئے، کئی مجرم ہیں جو اخیر تک اپنی زندگیاں جیتے ہیں اور اس (سزا) سے بچ جاتے ہیں۔البتہ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا وہ راتوں کو سو بھی پاتے ہونگے؟

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.