اب واٹس ایپ نے مرکزی حکومت کے حالیہ آئی ٹی ضابطوں کو چیلنج کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے، جس کے تحت بھیجے گئے مخصوص پیغامات کی اصل کو معلوم کرنے کے لئے میسجنگ سروسز کی ضرورت ہوگی۔
واضح رہے کہ دنیا کی بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں گوگل اور فیس بک نے منگل کے روز کہا تھا کہ وہ آئی ٹی کے نئے قواعد کی تعمیل کے لئے اقدامات کررہے ہیں۔ کمپنیوں نے یہ بات سوشل میڈیا کمپنیوں کے لئے آئی ٹی کے نئے اصول کے نفاذ سے آخری میعاد سے چند گھنٹے قبل کہی۔
- انفارمیشن ٹکنالوجی کے نئے قواعد آج 26 مئی سے نافذ ہوں گے۔
نئے قوانین کی تعمیل کے لئے بڑے سوشل میڈیا فورمز کو تین ماہ کی مہلت دی گئی تھی۔ اس زمرے میں ان فورمس کو رکھا جاتا ہے، جن کے رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے۔
قوانین پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ان سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنی حیثیت سے محروم ہونا پڑسکتا ہے۔ یہ شرط انھیں کسی تیسری پارٹی کی معلومات اور ان کے اعداد و شمار کی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ اور تحفظ فراہم کرتی ہے جس کی وہ 'میزبانی کرتے ہیں'۔
گوگل کے ترجمان نے کہا کہ کمپنی نے غیر قانونی مواد سے موثر اور منصفانہ انداز میں نمٹنے اور آپریٹنگ مقامات پر مقامی قواعد و ضوابط کی تعمیل کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔ اس کے تحت پروڈکٹس میں نمایاں تبدیلیوں کے ساتھ وسائل میں مستقل سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
فیس بک کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی آپریشنل طریقہ کار پر عمل درآمد کرنے کے لئے کام کر رہی ہے اور اس کا مقصد آئی ٹی قواعد کی دفعات پر عمل کرنا ہے۔
سوشل میڈیا کی بڑی کمپنی کا کہنا ہے کہ بعض معاملات پر کھلی وضاحت کے سلسلے میں وہ حکومت سے مستقل رابطے میں ہے۔ فیس بک کا ایک فوٹو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام بھی ہے۔
تاہم فیس بک اور گوگل دونوں نے منگل تک اصول وضوابط کی تعمیل کی نئی سطح کو پورا کرنے کے بارے میں کوئی بات واضح نہیں کی۔ تاہم کیس سے وابستہ ذرائع کے مطابق، فیس بک نے رضاکارانہ توثیق، فحاشی کے مواد کو ختم کرنے کے لئے 24 گھنٹے کی آخری تاریخ اور شکایتی ازالے کی حتمی توتیق نہیں کی ہیں۔جب کہ ٹویٹر نے تعمیل کی حیثیت کے بارے میں ابھی تک معلومات فراہم نہیں کی ہے۔