واشنگٹن: امریکہ وسط مدتی انتخابات میں تمام پیش گوئیوں کے برعکس ڈیموکریٹس نے اگلے دو سال کے لیے سینیٹ میں برتری برقرار رکھی ہے۔ ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں 50-50 نشستوں کی ٹائی کی صورت میں نائب صدر کملا ہیرس کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوا جس کی بدولت ڈیموکریٹ جماعت نے برتری حاصل کرلی۔ 6 دسمبر کو ریپبلکن کے امیدوار ہرشل واکر کا مقابلہ ڈیموکریٹ کے امیدوار رافیل وارنوک سے ہوگا جس کے بعد ممکن ہے کہ ڈیموکریٹس کو ایک نشست کے اضافے کے بعد 51 نشستیں ہو جائیں گی۔ US Midterm Elections Results
تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق امریکی ذرائع ابلاغ فاکس نیوز سمیت متعدد نیوز چینلز کا کہنا ہے کہ امریکی ریاست نیواڈا میں ڈیموکریٹس کی امیدوار کیتھرین کورٹیز نے سینیٹ میں کامیابی حاصل کی جبکہ ایزیزونا میں ڈیموکریٹ امیدوار مارک کیلی نے فتح حاصل کی۔
ایریزونا میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کے درمیان انتہائی سخت مقابلہ ہوا، ڈیموکریٹ مارک کیلی نے 11 لاکھ 86 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں جبکہ ان کے مدمقابل ریپبلکن کے بلیک ماسٹر نے 10 لاکھ 55 ہزار ووٹ حاصل کیے، دوسری جانب ڈیموکریٹ کی کیتھرین کورٹیز4 لاکھ 87 ہزار 829 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں جبکہ ان کے مدمقابل ریپبلکن کے ایڈم لکسٹ کو 4 لاکھ 81 ہزار 273 ووٹ ملے۔
ایوان نمائندگان کا نتیجہ ابھی واضح نہیں ہو سکا جہاں ری پبلکنز کسی حد تک ایوان میں بالادستی کی طرف گامزن ہیں وہیں صورتحال یہ ہے کہ یہ اکثریت اس سے کہیں کم ہوگی جس کا اندازہ انہوں نے (8 نومبر) منگل کو ہونے والے الیکشن میں لگایا۔
امریکہ کے تقریباً تمام نیوز چینل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ریپبلیکن امیدواروں کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں پر قبضہ کرنے سے روکنے کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔8 نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ٹرمپ کے 16 امیدواروں کی ڈیموکریٹ سے شکست ہوئی، شکست حاصل کرنے والے امیدواروں میں زیادہ تر وہ ہیں جو آج بھی 2020 کے صدارتی انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا حقیقی صدر مانتے ہیں۔ سینیٹ کے نتائج کے اعلان سے ایک روز قبل برطانوی اخبار دی گارجین نے لکھا کہ ’وسط مدتی انتخابات کے فاتح کا اعلان ابھی نہیں ہوا لیکن ہارنے والے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: Muslims in US Midterm Elections امریکی وسط مدتی انتخابات میں 82 مسلم امیدوار کامیاب
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’آج جمہوریت کے لیے اچھا دن ہے اور میرے خیال سے امریکہ کے لیے بھی اچھا دن ہے‘۔امریکی میڈیا کے مطابق اس الیکشن میں وہ پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں جن میں کہا گیا تھا کہ ری پبلیکن امیدوار سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں میں کامیابی حاصل کریں گے، ان نتائج کے بعد وائٹ ہاؤس میں ڈیموکریٹس کی سینیٹ میں متوقع اکثریت کا جشن منایا گیا۔
وائٹ ہاؤس کی سینئر ایڈوائزر انیتا ڈن نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ’ڈیموکریٹ کا سینیٹ میں کنٹرول عدلیہ، نامزدگیوں اور تقرریوں کے لیے نتیجہ خیز ہے، ڈیموکریٹ کی جیت امریکی سینیٹ میں ایجنڈے کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی بہتر ثابت ہوئی۔ خیال رہے کہ صدر کے پاس نامزدگیوں اور تقرریوں کے اختیارات ہوتے ہیں لیکن سینیٹ کے پاس بھی کسی امیدوار کو قبول کرنے اور مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔سینیٹ کے یہ اختیارات صدر کے ایجنڈے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اور صدر کے ترجیحی منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے سے انکار بھی کیا جا سکتا ہے۔
سابق ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار اور میساچوئسس کی سینیٹر الزبتھ وارن نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو ریپبلکن کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔انہوں نے این بی سی میٹ دی پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے وسط مدتی الیکشن میں غیرمتاثر کُن امیدواروں کا انتخابات کیا جس سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن یہ جیت جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کی ہے جنہوں نے بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا۔‘
ڈونالڈ ٹرمپ سال 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر توجہ دے رہے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس نے لبرل امریکی شہریوں سے متعلق چند اہم مسائل پر خاص طور پر توجہ دے رہے ہیں، مثال کے طور پر اسقاط حمل اور ریپبلیکن کنٹرول سینیٹ میں قدامت پسند ججوں کی تقرری اور ٹرمپ کا لبرل مخالف ایجنڈا شامل ہے۔تاہم طاقت ور ’سرخ لہر‘ کی ناکامی ریپبلیکن کی اندرونی سیاست کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
دوسری جانب اعتدال پسند رییپلکن جو ٹرمپ کے اثر ورسوخ کی وجہ سے بولنے سے ڈرتے تھے، وہ بھی اب ٹرمپ کی پالیسیوں پر الزام تراشی کررہے ہیں۔سینیٹر بل کیسیڈی نے وسط مدتی انتخابات میں ٹرمپ کے امیدواروں کی ناقص کارکردگی کی نشاندہی کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پنسلوینیا میں وسط مدتی انتخابات کے بعد ہونے والے اجلاس میں ریپبلیکن نے شکست کے بعد ٹرمپ سے لاتعلقی پر زور دیا۔پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا کے تفتیش کاروں کے مطابق اجلاس میں ایک ریپبلیکن نے کھلے عام ٹرمپ سے لاتعلقی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر ٹرمپ پارٹی کے سربراہ رہے تو ہم کبھی نہیں جیت سکتے۔ (یو این آئی)