ETV Bharat / international

Strikes in Iraq: عراق نے سیاحتی مقام پر بمباری کا الزام ترکیہ پر عائد کیا

author img

By

Published : Jul 21, 2022, 4:13 PM IST

عراق نے کردستان کے علاقے میں فضائی حملے Strikes in Iraq کرنے کا الزام ترکی پر عائد کیا ہے۔ اس حملے میں کم از کم آٹھ سیاح ہلاک اور 23 زخمی ہوگئے، تاہم ترکی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ ہو سکتا ہے۔ ترکیہ کی وزارت خارجہ نے عراقی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ انقرہ کے ساتھ اس حملے کے اصل مجرموں کی تلاش میں تعاون کریں۔

Turkey rejects deadly strikes in northern Iraq
عراق نے سیاحتی مقام پر بمباری کا الزام ترکیہ پر عائد کیا، ترکیہ کا انکار

بغداد: عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان کے صوبہ دہوک میں واقع سیاحتی مقام میں بدھ کے روز بمباری Strikes in Iraq میں آٹھ افراد ہلاک اور 23 زخمی ہو گئے۔ توپ خانے کی بمباری دوپہر 13:50 پر ہوئی۔ جوائنٹ آپریشن کمانڈ کے میڈیا آفس نے ایک بیان میں کہا کہ عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا اور وزیر خارجہ فواد حسین اور کئی فوجی کمانڈروں کو جائے وقوعہ پر بھیج دیا ہے۔

اس حملے کے بعد عراق نے انقرہ سے اپنے چارج ڈی افیئرز کو مشاورت کے لیے واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور شمالی عراقی سیاحتی مقام پر مہلک بمباری پر ترک سفیر کو طلب کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عراقی وزارتی کونسل برائے قومی سلامتی نے بدھ کو توپ خانے کے حملوں پر ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کے بعد اس کا اعلان کیا۔ عراق نے ترکی پر اپنے نیم خودمختار علاقے دوہوک صوبے میں ریزورٹ پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا، تاہم انقرہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ عراقی وزارتی کونسل نے ایک بیان میں کہا، "ترکی عراق کی خودمختاری کے خلاف خلاف ورزیوں کو روکنے کے عراق کے مطالبات کو نظر انداز کر رہا ہے اور اچھے پڑوسی کے اصول کی توہین کر رہا ہے۔کونسل نے اس حملے کے خلاف احتجاج کے لیے ترکی میں نئے سفیر بھیجنے سے منع کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت درج کرانے کا حکم دینے کا بھی فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

Iraqi people smuggler: عراق میں انسانوں کے اسمگلر کی آمدنی سالانہ ایک لاکھ ڈالر

وہیں ترکی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ ہو سکتا ہے۔ اور عراقی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بیان دینے سے گریز کریں۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ترکی بین الاقوامی قوانین کے مطابق دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم شہریوں، شہری بنیادی ڈھانچے، تاریخی اور ثقافتی اثاثوں اور فطرت کے تحفظ کے لیے انتہائی حساسیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ترکی سچائی پر روشنی ڈالنے کے لیے تمام اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔ وزارت نے عراقی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ انقرہ کے ساتھ اس حملے کے اصل مجرموں کی تلاش میں تعاون کریں۔

قابل ذکر ہے کہ اپریل میں، ترک افواج نے عراق کے صوبہ دوہوک کے میٹینا، جاپ اور آواسین باسیان علاقوں میں اپنی سرحدوں کے پار (پی کے کے) کے ٹھکانوں کے خلاف زمینی اور فضائی حملہ کیا تھا۔ ترک افواج اکثر کردستان، عراق میں زمینی کارروائیاں، فضائی حملے اور توپ سے بمباری کرتی ہیں۔ خاص طور پر قندیل پہاڑ پر جو پی کے کے کے باغیوں کا مرکزی بیس کیمپ ہے۔ ترکی، امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے دہشت گرد تنظیم کے طور پر درج پی کے کے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔

بغداد: عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان کے صوبہ دہوک میں واقع سیاحتی مقام میں بدھ کے روز بمباری Strikes in Iraq میں آٹھ افراد ہلاک اور 23 زخمی ہو گئے۔ توپ خانے کی بمباری دوپہر 13:50 پر ہوئی۔ جوائنٹ آپریشن کمانڈ کے میڈیا آفس نے ایک بیان میں کہا کہ عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا اور وزیر خارجہ فواد حسین اور کئی فوجی کمانڈروں کو جائے وقوعہ پر بھیج دیا ہے۔

اس حملے کے بعد عراق نے انقرہ سے اپنے چارج ڈی افیئرز کو مشاورت کے لیے واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور شمالی عراقی سیاحتی مقام پر مہلک بمباری پر ترک سفیر کو طلب کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عراقی وزارتی کونسل برائے قومی سلامتی نے بدھ کو توپ خانے کے حملوں پر ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کے بعد اس کا اعلان کیا۔ عراق نے ترکی پر اپنے نیم خودمختار علاقے دوہوک صوبے میں ریزورٹ پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا، تاہم انقرہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ عراقی وزارتی کونسل نے ایک بیان میں کہا، "ترکی عراق کی خودمختاری کے خلاف خلاف ورزیوں کو روکنے کے عراق کے مطالبات کو نظر انداز کر رہا ہے اور اچھے پڑوسی کے اصول کی توہین کر رہا ہے۔کونسل نے اس حملے کے خلاف احتجاج کے لیے ترکی میں نئے سفیر بھیجنے سے منع کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت درج کرانے کا حکم دینے کا بھی فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

Iraqi people smuggler: عراق میں انسانوں کے اسمگلر کی آمدنی سالانہ ایک لاکھ ڈالر

وہیں ترکی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ ہو سکتا ہے۔ اور عراقی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بیان دینے سے گریز کریں۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ترکی بین الاقوامی قوانین کے مطابق دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم شہریوں، شہری بنیادی ڈھانچے، تاریخی اور ثقافتی اثاثوں اور فطرت کے تحفظ کے لیے انتہائی حساسیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ترکی سچائی پر روشنی ڈالنے کے لیے تمام اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔ وزارت نے عراقی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ انقرہ کے ساتھ اس حملے کے اصل مجرموں کی تلاش میں تعاون کریں۔

قابل ذکر ہے کہ اپریل میں، ترک افواج نے عراق کے صوبہ دوہوک کے میٹینا، جاپ اور آواسین باسیان علاقوں میں اپنی سرحدوں کے پار (پی کے کے) کے ٹھکانوں کے خلاف زمینی اور فضائی حملہ کیا تھا۔ ترک افواج اکثر کردستان، عراق میں زمینی کارروائیاں، فضائی حملے اور توپ سے بمباری کرتی ہیں۔ خاص طور پر قندیل پہاڑ پر جو پی کے کے کے باغیوں کا مرکزی بیس کیمپ ہے۔ ترکی، امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے دہشت گرد تنظیم کے طور پر درج پی کے کے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.