سری لنکا کی حکومت نے جمعہ کو موجودہ معاشی بحران پر صدر گوتابایا راجا پاکسے کی رہائش گاہ کے قریب پرتشدد مظاہرے کو 'دہشت گردی کی کارروائی' قرار دیا۔اس واقعے کی ذمہ داری حزب اختلاف کی جماعتوں سے وابستہ 'انتہا پسند عناصر' کو قرار دیا گیا ہے۔ جمعرات کو سینکڑوں مظاہرین راجا پاکسے کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے تھے۔جنہوں نے ملک میں شدید معاشی بحران سے نمٹنے میں ناکامی پر صدر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔احتجاج میں فوری طور پر تشدد تبدیل ہوگیا جس میں کئی افراد زخمی ہوگئے اور گاڑیوں کو آگ کے حوالے کردیا گیا تھا۔Sri Lanka Economical Crisis
صدر کی رہائش گاہ کے قریب اسٹیل کے لگے رکاوٹوں کو گرانے کے بعد پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ اس ضمن میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔کولمبو شہر کے بیشتر علاقوں میں کچھ دیر کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جسے بعد ہٹا دیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ سری لنکا میں زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے ایندھن جیسی ضروری اشیاء کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ملک کی حالت ایسی ہے کہ دن میں 13 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ ڈیلی مرر نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو صدر کے میڈیا ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر راجا پاکسے کی رہائش گاہ کے قریب تشدد میں ایک انتہا پسند گروپ ملوث تھا۔
یہ بھی پڑھیں: Sri Lanka Economical Crisis: سری لنکا میں پرتشدد مظاہرہ، کولمبو میں کرفیو نافذ
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے منظم شدت پسندوں کا سراغ بھی لگایا گیا ہے۔ دریں اثناء سری لنکا کے وزیر ٹرانسپورٹ نے بھی صحافیوں کو بتایا کہ صدارتی رہائش گاہ کے قریب تشدد ایک ’دہشت گردی کی کارروائی‘ تھی۔ وزیر سیاحت پرسنا رانا ٹنگا نے تشدد کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں سماگی جان بالویگایا (SJB) اور جنتا ویمکتھی پیرامونا (JVP) سے وابستہ "انتہا پسند عناصر" کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ساتھ ہی وزیر صحت نے کہا کہ صدر کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ یہ مظاہرہ انٹیلی جنس کی ناکامی کی وجہ سے ہوا ہے۔ دریں اثنا، پولیس نے کہا کہ تشدد کی وجہ سے گرفتار افراد کی تعداد 54 ہو گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ پولیس انسداد دہشت گردی ایکٹ (پی ٹی اے) کے تحت گرفتار افراد پر فرد جرم عائد کر سکتی ہے۔