تہران: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ مغرب ان کے ملک کو تنہا کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس نے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے امکانات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے دارالحکومت تہران میں گزشتہ روز ایک اخباری کانفرنس میں کہا کہ دشمن نے دُہری حکمت عملی پر عمل کرنے کی کوشش کی ایک ایران کو دنیا سے الگ تھلگ کرنا اور دوسرا ایرانی قوم کی حوصلہ شکنی کرنا، مگر وہ ان دونوں حکمت عملیوں کے ساتھ ناکام رہا ہے اور وہ ایران کو الگ تھلگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
ابراہیم رئیسی 2018 میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے بعد سے ایران پر پابندیوں کے نفاذ اور ستمبر 2022 میں پولیس کے زیر حراست نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے ردعمل میں شروع ہونے والے مظاہروں کا حوالہ دے رہے تھے۔ صدر نے کہا کہ ایران 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات کے ذریعے پابندیوں کے خاتمے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے تاہم انھوں نے مزید کہا کہ ہم ملک کی معیشت کو مغربی ممالک کی خواہشات سے نہیں جوڑ رہے ہیں۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں رواں ماہ اس وقت کمی واقع ہوئی جب امریکہ نے جنوبی کوریا میں منجمد کیے گئے چھ ارب ڈالر کے فنڈز کی واپسی کے بدلے میں ایران سے پانچ امریکی قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس نازک معاہدے میں 2024ء میں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل جوہری معاہدے کی واپسی کا امکان شامل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- برکس میں ایران اور سعودی عرب سمیت چھ نئے ممالک کی شمولیت
- ایران کے جوہری مسئلہ کا پرامن طریقے سے حل ہونا چاہیے: برکس
ابراہیم رئیسی نے اخباری کانفرنس میں سفارتی کامیابیوں پر روشنی ڈالی جن میں سعودی عرب جیسے عرب ممالک کے ساتھ مفاہمت، شنگھائی تعاون تنظیم میں اس کی رکنیت اور برکس گروپ میں شمولیت کی دعوت شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ اُبھرتے ہوئے ممالک کے ساتھ اس طرح کے اتحاد امریکا کے یک طرفہ تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اچھا موقع کی نمائندگی کرتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت ایران کی معیشت پرڈالر کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ (یو این آئی)