سرینگر: جموں کشمیر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (SRTC) کی بسوں کی معطلی سے نہ صرف ہزاروں مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ بسوں کی معطلی کارپوریشن کی بحالی کی کوششوں کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ایس آر ٹی سی، جو حالیہ برسوں میں خسارے سے نکل کر خود کفیل ہونے کی طرف گامزن تھی، اب روزانہ لاکھوں روپے کے نقصان کا سامنا کر رہی ہے۔
شہر سرینگر میں ٹریفک پولیس نے ’’ٹریفک کم کرنے‘‘ کے نام پر ایس آر ٹی سی کی بسوں کے شہر میں داخلے سے روک لگائی ہے۔ یہ اقدام کسی سرکاری حکم کے بغیر لیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں مسافروں، بس ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کے ساتھ ساتھ کارپوریشن کو بھی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کے جنرل منیجر شوکت احمد کے مطابق، یہ بسیں روزانہ 17600 مسافروں کو سہولت فراہم کرتی تھیں اور کارپوریشن کو روزانہ 8 لاکھ روپے کا ریونیو حاصل ہوتا تھا۔ تاہم، بسوں کی معطلی کے بعد سے ریونیو میں 5 لاکھ روپے تک گر گیا ہے۔
مسافروں کی مشکلات
سرکاری بسوں کے بند ہونے سے طلبہ، ملازمین، مریضوں اور دیگر مسافروں کو متبادل اور مہنگے ذرائع پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ جہاں وہ ایس آر ٹی سی کی بسوں میں صرف 40 روپے کرایہ ادا کرتے تھے، وہیں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں یہ سفر تین گنا مہنگا پڑ رہا ہے۔ سائمہ جان نامی ایک طالبہ نے بتایا: ’’ایس آر ٹی سی بسوں میں سفر کرنا معاشی طور پر ممکن تھا، لیکن اب پرائیویٹ کیب سروسز کا کرایہ برداشت کرنا مشکل ہے۔‘‘
ٹریفک پولیس کا موقف
ٹریفک پولیس نے جموں کشمیر ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے شہر میں ٹریفک کم کرنے کے لیے بسوں کے شہر میں داخلے پر روک کا دفاع کیا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ٹریفک) مظفر شاہ نے کہا کہ عدالت نے شہر میں ٹریفک جام کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا حکم دیا تھا اور اسی عدالتی حکم کے تحت بسوں کو روک دیا گیا ہے۔
کارپوریشن کی بحالی پر اثرات
ایس آر ٹی سی، جو کبھی خسارے میں تھی، نے سال 2020 میں 100 سے زائد نئی بسوں کا آغاز کیا تھا، جن میں 40 ای-بسیں بھی شامل تھیں۔ اس منصوبے نے کارپوریشن کو مالی طور پر مستحکم کیا، جس کا ریونیو مالی سال 2022-23 میں 125 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ جنرل منیجر نے خبردار کیا کہ بسوں کی معطلی جاری رہی تو کارپوریشن دوبارہ قرضوں میں دب سکتی ہے۔
ٹریفک جام کا متبادل حل
ڈرائیوروں اور مسافروں کا کہنا ہے کہ ایس آر ٹی سی کی بسیں شہر کے مخصوص مقامات پر رکتی ہیں اور ان کا آپریشن منظم طریقے سے ہوتا ہے، اس لیے انہیں بند کرنا ٹریفک جام کا حل نہیں۔ اعجاز احمد نامی ایک ڈرائیور نے کہا: ’’جب ہماری بسیں دن کے مخصوص اوقات میں چلتی ہیں اور صرف نامزد مقامات پر ہی رکتی ہیں، تو ان پر ٹریفک جام کا الزام بے بنیاد ہے۔‘‘
حکومتی مداخلت کی ضرورت
ایس آر ٹی سی کے جنرل منیجر اور ٹریفک پولیس کے درمیان اختلافات نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے ایڈمنسٹریٹو سیکریٹری، نیرج کمار، نے کہا کہ وہ اس معاملے کو ڈویژنل کمشنر اور آئی جی پی ٹریفک کے ساتھ اٹھائیں گے تاکہ بسوں کی بحالی ممکن ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: ای بس ڈرئیوروں کا احتجاج، تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ