اسلام آباد: پاکستان کے اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کے رہنماؤں اور وکلاء کو اڈیالہ جیل میں ان سے ملنے اور 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں انتخابی حکمت عملی میٹنگ کرنے کی اجازت دے دی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے یہ حکم عمران خان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان اسد قیصر، جنید اکبر خان، سینیٹرز اورنگزیب خان، دوست محمد خان اور اشتیاق مہربان سے ملاقاتوں کی اجازت کے لیے دائر درخواست پر دیا۔
ایڈشنل اٹارنی جنرل اور اڈیالہ جیل سپرٹنڈنٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ پارٹی کے 700 ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے مشاورت درکار ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نئے اور پرانے چیئرمین پی ٹی آئی کے درمیان ٹکٹوں کے معاملے پر مشاورت بنیادی حق ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کی مخالفت کی۔
عدالت نے درخواست کی مخالفت کرنے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل پر اظہار برہمی کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ سے آنے والا اضافی نوٹ آپ کے لیے کافی نہیں تھا؟ سپریم کورٹ کے بعد کیا مجھ سے بھی اپنے خلاف نوٹ لکھوانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل آفس نگران حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کو غیر جانبدار ہونا چایئے، نگران حکومت کے زیر نگرانی خوفناک نظام چل رہا ہے کہ انتخابی مشاورت کی اجازت بھی نہیں،نگران حکومت کیا انتخابات کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے؟
عدالت نے مشاورت کی اجازت دے کر درخواست نمٹاتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان کو بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کی اجازت دیتے ہوئے حکم دیا کہ سپریڈنٹ اڈیالہ جیل کی نگرانی میں بانی پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی ملاقات کرائی جائے۔ عدالت نے کہا کہ انتخابات کے لیے مشاورت کی اجازت بنیادی حق ہے، انتخابات میں نگران حکومت کو غیر جانبدار ہونا چاہیے،سابق اور موجودہ چیئرمین پی ٹی آئی کی مشاورت میں مخالفت سے نگران حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں