غزہ: غزہ کے سب سے بڑے طبی مرکز الشفاء اسپتال پر اسرائیلی افواج کی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے فلسطینی حکام نے اسرائیل پر "نسل کشی" اور "انسانیت کے خلاف جرائم" کا الزام عائد کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل الشفاء اسپتال کو حماس کا ہیڈ کوارٹر بتاتا رہا ہے لیکن اسپتال پر کارروائی سے قبل اسرائیل اس کے ثبوت پیش نہیں کر پایا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب تک اسرائیل اس بات کا ثبوت نہیں دیتا کہ اسپتال کو فوجی بیس میں تبدیل کر دیا گیا ہے، تب تک اس اسپتال کی شہری نوعیت نہیں بدلتی۔ جنیوا کنونشن کے مطابق، وہ تحفظ جس کا شہری اسپتالوں کو حق حاصل ہے، "اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کہ وہ اپنے انسانی فرائض سے ہٹ کر، دشمن کے لیے نقصان دہ کام کرنے کے لیے استعمال نہ ہوں"۔ "تاہم، تحفظ صرف تب ہی ختم ہو سکتا ہے جب مناسب وارننگ دی گئی ہو، ایک مناسب وقت کی حد طے کی گئی ہو اور اگر اس طرح کی وارننگ پر توجہ نہیں دی جارہی ہو تو "
یہ بھی پڑھیں:فلسطینیوں کے مضبوط ایمان سے متاثر ہو کر امریکی ٹک ٹاکر نے اسلام قبول کر لیا
غزہ میں مہلوکین کی تعداد، آخری بار 10 نومبر کو اپ ڈیٹ ہوئی ہے۔ جس کے مطابق 11,078 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 4,506 بچے اور 3,027 خواتین شامل تھیں۔ مزید 2,700 افراد جن میں ایک اندازے کے مطابق 1,500 بچے بھی شامل ہیں، لاپتہ ہیں۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ بیشتر لاپتہ بم زدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب چکے ہیں اور پہلے ہی مر چکے ہیں یا بچاؤ کے منتظر ہیں۔ ابھی تک تقریباً 27,500 فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ پیر اور منگل کی سہ پہر کے درمیان 24 گھنٹوں کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں مزید 8 فلسطینی مارے گئے ہیں، 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی کل تعداد 182 ہو گئی ہے، جن میں 46 بچے بھی شامل ہیں۔ اسی عرصے کے دوران اسرائیلی آباد کاروں نے ایک بچہ سمیت آٹھ فلسطینیوں کو بھی قتل کیا ہے۔ وہیں، فلسطینیوں کے حملوں میں تین اسرائیلی مارے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ، 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں مزید دو اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں، جس سے غزہ پر اسرائیل کی زمینی جارحیت شروع ہونے کے بعد ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 51 ہو گئی ہے۔