تہران: ایران نے لازمی لباس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد پر لگام لگانے کی ایک نئی کوشش کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد ایرانی حکام بے پردہ خواتین کی شناخت اور پھر انکی تأدیبی کاروائی کے لیے عوامی مقامات اور راستوں پر کیمرے نصب کر رہے ہیں۔ پولیس نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ بے پردہ خواتین کی شناخت ہونے کے بعد، خلاف ورزی کرنے والوں کو نتائج کے بارے میں 'انتباہی ٹیکسٹ پیغاماٹ' موصول ہوں گے۔
ایرانی عدلیہ کی میزان نیوز ایجنسی اور دیگر سرکاری میڈیا کے ذریعے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد حجاب کے قانون کے خلاف مزاحمت کو روکنا ہے چونکہ اس طرح کی مزاحمت ملک کی روحانی شبیہ کو داغدار کرتی ہے اور عدم تحفظ کو پھیلاتی ہے۔ پولیس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے انفرادی یا اجتماعی رویے اور عمل کو قانون کی خلاف ورزی میں برداشت نہیں کرے گا۔ الجزیرہ کے مطابق یہ اعلان گزشتہ سال ستمبر میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد سے حجاب کے لازمی قوانین میں نرمی پر ملک کی طاقتور مذہبی اشرافیہ میں بڑھتے ہوئے غصے کے درمیان سامنے آیا ہے۔
دراصل گزشتہ ستمبر میں ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایرانی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے پردے ہٹا رہی ہے اور حکومت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرا رہی ہیں۔ مہسا امینی کو خواتین کے لیے ملکی لباس کے ضابطے کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کی موت نے حکومت مخالف مظاہروں کی ایک لہر کو جنم دیا جس نے مہینوں تک ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ بھی پڑھیں:
- ایران میں حجاب مخالف مظاہروں میں تین سو سے زائد افراد ہلاک
- حکومت کی تنقید کرنے پر ایران کے سپریم لیڈر کی بھانجی گرفتار
- ایران میں انسانی حقوق سے متعلق یو این کی قرارداد منظور، بھارت کی ووٹنگ سے دوری
اس کے بعد سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر وحشیانہ کریک ڈاؤن بھی کیا۔ واضح رہے کہ 1979 کے انقلاب کے بعد نافذ ہونے والے ایرانی قانون کے تحت خواتین کو اپنے بالوں کو ڈھانپنے کے ساتھ ساتھ لمبے ڈھیلے کپڑے بطور حجاب پہننے کی پابند ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو چھپا سکیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو عوامی سرزنش، جرمانے یا گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔