فیصل آباد (پاکستان): 1947 میں تقسیم ہند کے دوران علیحدہ ہونے والے دو سکھ بھائی 75 برس بعد جب پہلی مرتبہ کرتار پور راہداری ملے تو ان کے آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔ بھارتی سکھ سیکا کی عمر صرف چھ ماہ تھی جب وہ اپنے بڑے بھائی صادق خان سے بچھڑ گئے تھے۔Indian Pakistani Siblings Reunite اس برس تقسیم کی 75 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے، جس کے دوران فرقہ وارانہ خونریزی میں ممکنہ طور پر 10 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے اور سیکا جیسے ہزاروں خاندان اس خونریزی کی زد میں آئے۔ اس کے بعد دو آزاد قومیں -- پاکستان اور بھارت -- وجود میں آئیں۔
سیکا کے والد اور بہن کو فرقہ وارانہ قتل عام میں قتل کر دیا گیا تھا، لیکن صادق، جو اس وقت صرف 10 سال کا تھا، پاکستان فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ سیکا نے بھارت کے مغربی ریاست پنجاب کے ضلع بھٹنڈا میں رہائش پذیر ہے، انھوں نے کہا، "میری ماں تقسیم کے وقت تشدد کے صدمے کو برداشت نہ کر سکی اور دریا میں چھلانگ لگا کر خود کو ہلاک کر لیا، مجھے گاؤں والوں اور کچھ رشتہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جنہوں نے میری پرورش کی۔
بچپن سے ہی سیکا اپنے بھائی کے بارے میں جاننے کے لیے تڑپ رہے تھے، لیکن پڑوس کے ایک ڈاکٹر نے تین برس قبل ان کی مدد کی پیشکش کی اور متعدد فون کالز اور پاکستانی یوٹیوبر ناصر ڈھلون کی مدد کے بعد، سیکا اپنے بڑے بھائی صادق کے ساتھ دوبارہ ملنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: Reena Verma on Pakistan: پاکستان میں سوچ سے بھی زیادہ پیار ملا، بھارتی خاتون رینا ورما
دونوں بھائیوں کی ملاقات بالآخر جنوری میں کرتار پور راہداری پر ہوئی، یہ ایک نایاب، ویزہ فری کراسنگ ہے جو بھارتی سکھ یاتریوں کو پاکستان میں گرودوارے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ راہداری، جو 2019 میں کھولی گئی تھی، دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ دشمنی کے باوجود، علیحدہ خاندانوں کے لیے اتحاد اور مفاہمت کی علامت بن گئی ہے۔
سیکا نے کہا۔"میں بھارت سے ہوں اور وہ پاکستان سے ہے، لیکن ہمیں ایک دوسرے سے بہت پیار ہے، جب ہم پہلی ملے تو ہم نے گلے لگ کر بہت رویا۔ ممالک آپس میں لڑتے رہ سکتے ہیں، لیکن ہمیں بھارت اور پاکستان کی سیاست کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
پاکستانی کسان اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹ 38 سالہ ڈھلون، جو ایک مسلمان ہیں، کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے اپنے ایک پاکستان سکھ دوست دوست بھوپندر سنگھ کے ساتھ مل کر تقریباً 300 خاندانوں کو دوبارہ ملانے میں مدد کی ہے۔ ڈھلون نے اے ایف پی کو بتایا، "یہ میری آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ میرا پیار اور جذبہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کہانیاں میری اپنی کہانیاں ہیں یا میرے دادا دادی کی کہانیاں ہیں، لہذا ان بزرگوں کی مدد کر کے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنے دادا دادی کی خواہشات کو پورا کر رہا ہوں۔