لاہور: پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف تشدد بھڑک اٹھا تھا جس کے بعد کور کمانڈر ہاؤس کو نذر آتش کیا گیا وہیں تشدد کے دیگر واقعات کے معاملات میں عمران کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گئے اسی سلسلے میں آج عمران خان کا لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہونے کا امکان ہے۔ عمران خان جمعہ کو ضمانت ملنے کے باوجود دوبارہ گرفتاری کے خوف سے گھنٹوں تک اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں بند رہنے کے بعد ہفتے کے روز اپنے لاہور گھر واپس آئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 70 سالہ عمران خان کی ضمانت منظور کر لی تھی، حکام کو 9 مئی کے بعد درج کیے گئے تمام مقدمات میں انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ 15 مئی کو مزید ریلیف کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔
القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعظم عمران کو 9 مئی کو گرفتار کیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں دو ہفتوں کے لیے قبل از گرفتاری ضمانت دی تھی۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھیج دیا تھا۔ عمران خان کی پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کے 9 مئی کے بعد لاہور اور صوبہ پنجاب کے دیگر حصوں میں اپنے خلاف درج چھ مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنی رہائش گاہ پر پارٹی رہنماؤں (جو ابھی گرفتار نہیں ہوئے ہیں) کے ساتھ میٹنگ کی اور پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے ان کی پیشی پر بھی بات ہوئی۔
پنجاب پولیس نے 10 مئی کو عمران خان اور ان کی پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کے خلاف لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کرنے اور آگ لگانے کے علاوہ ان کے حامیوں کو ریاستی عمارتوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے اور اسے نقصان پہنچانے پر اکسانے کے الزام میں ان کے خلاف پانچ دیگر ایف آئی آر درج کیں۔ عمران خان، شاہ محمود قریشی اور دیگر پر گزشتہ منگل کو لاہور چھاؤنی میں 'جناح ہاؤس' کے نام سے مشہور سینئر فوجی کمانڈر ہاؤس پر حملہ کرنے کے الزام میں قتل، دہشت گردی اور 20 دیگر گھناؤنے جرائم کے تحت فرد جرم عائد کیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مظاہرین نے راولپنڈی میں آرمی ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر دھاوا بولا اور لاہور میں کور کمانڈر کے گھر کو بھی نذر آتش کیا۔ پولیس نے پرتشدد جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10 بتائی ہے جب کہ عمران خان کی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے 40 کارکنان سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ میں مارے گئے ہیں۔ پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پھوٹنے والے تشدد میں ملوث ہونے کے الزام میں صوبہ پنجاب میں 3500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے بیشتر کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں : Imran Khan After Bail ہائی کورٹ سے مجھے اغوا کر لیا گیا تھا، عمران کا بیان