ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ 'امریکہ کی طرف سے عائد یکطرفہ پابندیوں نے ایران کی معیشت کو ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے اور تہران کو معاوضے کی توقع ہے'۔
محمد جواد ظریف نے آج کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پابندیاں اٹھانے کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کے بعد تہران اس کے نقصانات پر بات چیت کرنا چاہے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے میڈیا کو بتایا کہ 'جب ہم ملیں گے، بات چیت کریں گے تو ہم معاوضے کی بھی بات اٹھائیں گے'۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2018 میں یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے کو ترک کر دیا تھا اور ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں جس سے ایران کی معیشت کے تمام شعبوں کو نقصان پہنچا ہے۔
جواد ظریف کے مطابق، ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے قبل ایران پر 800 طرح کی پابندیاں نافذ کی تھیں اور جوہری معاہدے کے بعد 800 نئی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اس سے پہلے کہ امریکہ جوہری معاہدے میں واپس آئے، امریکہ کو ایران پر عائد تمام پابندیوں کو واپس لینے کی ضرورت ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے کے دیگر دستخط کنندہ چین اور روس پابندیوں کے دور میں ایران کے 'دوست' رہے ہیں، اس بات کا ثبوت ان کے افراد اور اداروں پر عائد درجنوں پابندیاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیائی وزیر اعظم کو کووڈ ویکسین کی پہلی خوراک دی گئی
ظریف نے کہا کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ اس معاہدے کے یورپی دستخط کنندگان کو E3 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایران کے ساتھ اپنے اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی کوشش نہیں کر رہا ہے۔
بتا دیں کہ گذشتہ روز امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ سنہ 2015 کے عالمی جوہری معاہدے پر دوبارہ عمل درآمد کے واسطے ایران کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد اعلان کیا تھا کہ اگر ایران معاہدے کی شرائط کی مکمل تعمیل کرتا ہے تو امریکہ باضابطہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) میں واپس آجائے گا۔
دریں اثناء، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے جمعہ کے روز ٹویٹ کیا تھا کہ 'امریکہ کو معاہدے کا حصہ بننے اور پی 5 پلس 1 کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ایران کے خلاف عائد پابندیاں ختم کرنے کی کارروائی شروع کرنی چاہیے'۔