مشرق وسطی کے ملک لبنان میں روزگار کی عدم دستیابی اور بنیادی سہولیات کی قلت کی وجہ سے گزشتہ برس اکتوبر ہی سے مسلسل حکومت مخالف مظاہرے چل رہے ہیں۔
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہزاروں لوگ اور پولیس کے درمیان اب بھی تصادم جاری ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اب تک 458 سے زائد افراد اس تصادم کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔
بتایا جارہا ہے کہ یہ تصادم وزیراعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کا سبب بنا لیکن نئی حکومت سازی کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ جس کے بعد مشہور انجینیئر حسن دیب کو عبوری طور سے وزیراعظم بنایا گیا ہے۔
بیروت کے آیچا بکر کے علاقے میں ایک قصاب محمد ابراہیم نے کئی ماہ کی مالی پریشانی برداشت کی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے افراد خاندان پر بھی برا اثر پڑا ہے۔
چونکہ اکتوبر 2019 میں حکومتی بدعنوانی اور معاشی بدحالی کے خلاف ہزاروں افراد نے ملک گیر مظاہرے کیے تھے، یہاں تک کہ صارفین نے اپنی روزمرہ کی ضروریات کی اشیا کی خریداری کو تقریبا آدھا کردیا ہے۔
مشرق وسطی کے بیشتر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کا آغاز حکومتی عہدے داروں کا مالی معاملات میں خرد برد اور حد سے زیادہ بدعنوانی سے ہوا ہے۔
لبنان میں عوامی قرضوں کا بوجھ سب سے زیادہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ لبنان کی قومی گھریلو پیداور ( جی ڈی پی ) سے بھی زیادہ قرضوں کا بوجھ عوام کو مسلسل متاثر کررہا ہے۔
ان نقصانات کا تعلق بہت سارے عوامل سے ہے۔ ملک کے بینکاری شعبے میں پے درپے افراط زر ہورہا ہے، جس سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ جب معیشت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے تو کاروباری افراد اور سرمایہ کار دکان اور اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں یا عملے کو چھٹکارا دیتے ہیں، جس کے بعد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کام سے ہٹاتے ہیں۔
بیروت میں بینکنگ شعبہ میں لگاتار گراوٹ کی وجہ سے قریب تین ماہ کے تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق ان حالات کی وجہ سے متوسط طبقہ کا صفایا ہوجائے گا اور عام لوگوں کے اندر قوت خرید بھی ختم ہوجائے گی۔
چونکہ ملک کا معاشی اور سیاسی بحران گہرا ہوگیا ہے، اس نے اس خدشے کو ہوا دی ہے کہ لبنان میں غربت کی سطح میں اضافہ ہوگا۔
اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک طویل عرصے سے معاشی بحران کا رخ موڑ سکتا ہے، لیکن دوسروں نے خبردار کیا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے معیار زندگی میں بھی کمی آتی جارہی ہے۔
معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے باضابطہ طور پر حکومت بنانے کا کام سونپنے اور معاشرتی بدامنی پھیلنے کے بعد وزیر اعظم حسن دیب نے حالیہ عرضے میں نئی کابینہ کا اعلان کیا ہے ۔
مزید پڑھیں: عراق: مظاہرین کے کیمپ میں شدت پسندوں نے لگائی آگ
رواں ماہ 21 جنوری 2020 کو مظاہرین نے نئی تشکیل پانے والی کابینہ میں اپنے عدم اعتماد کو روکنے کے لئے ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے، جس میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس ملک کی روایتی پارٹی کے گروپوں کی طاقت اب بھی برقرار ہے۔