ہر برس کروڑوں لوگوں کو گونوریا، کلامیڈی، سفلس اور ٹرائیکومونیئیسس جیسے جنسی انفکیشنس سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنسی انفکیشنس کو روکنے کی رفتار دھیمی ہے اور ان اعدادوشمار کو ایک انتباہ کی طرح دیکھا جانا چاہیے۔
جنسی انفکیشنس سے متعلق ان امراض میں اضافے پر ماہرین کافی فکر مند ہیں جن کا علاج دواؤں سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت چار جنسی طور پر منتقل شدہ انفکیشنس کے عالمی سطح پر اثرات کی باضابطہ طور پر تشخیص کرتا ہے۔
سنہ 2012 کے موازنے میں اس بار نئے یا موجودہ انفیکشنس میں کوئی خاص کمی نہیں نظر آئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ذریعے تشخیص کے مطابق دنیا بھر میں 25 لوگوں میں سے ایک شخص جنسی انفیکشنس کا شکار ہے۔
ٹرائیکومونیئیسس جنسی رشتہ قائم کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ گونوریا، کلامیڈی اور سفلس بیکٹریا سے ہونے والے انفیکشنس ہیں۔
اس طرح کے انفیکشنس میں ضروری نہیں کہ اس کی علامات شروع میں ہی نظر آ جائے، کچھ لوگوں میں ان انفیکشنسس کی علامات نہیں بھی نظر آتی ہے لیکن وہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
ان علامات میں شامل ہے، پیشاب کے ساتھ درد ہونا، پیریئڈ کے وقت بہت زیادہ خون کا بہنہ وغیرہ۔
کلامیڈی اور گونوریا سے خواتین کو مختلف قسم کی سنگین پریشانی ہو سکتی ہے جیسے بانجھ پن، دل سے متعلق بیماریاں وغیرہ۔
اگر ایک حاملہ خاتون کو اس طرح کا انفیکشن ہوتا ہے تو اس کے بچے پر اس کا سنگین اثر ہو سکتا ہے۔
اس سے بچہ وقت سے پہلے یا کافی کمزور پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بچے کو پیدائش سے ہی کوئی بیماری ہو سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ڈاکٹر پیٹر سلمیٰ کہتی ہیں کہ 'ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں جنسی طور پر منتقل شدہ انفیکشنس کو روکا نہیں جا رہا ہے۔ یہ ایک انتباہ ہے کہ ہر شخص ان بیماریوں سے لڑنے کی کوشش کریں اور لوگوں کو اس کے علاج کی سہولیات دستیاب ہوں۔'