ETV Bharat / international

امریکہ کے غلط اقدامات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے سے پوری دنیا حیرت زدہ ہے کیونکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ موصوف کے کہنے اور کرنے میں بہت زیادہ تضاد ہے۔

امریکہ کے غلط اقدامات
امریکہ کے غلط اقدامات
author img

By

Published : Jan 9, 2020, 10:26 PM IST

ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرون ملک مختلف مقامات سے امریکی افواج کو واپس بلا لیں گے تا کہ ان ممالک کو جنگوں سے آزاد کر سکیں لیکن انہوں نے اپنی طاقت کا استعمال کرکے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود مسائل کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔

سنہ 2011 میں ٹرمپ ٹویٹر پر بار بار اس خیال کا اظہار کررہے تھے کہ بارک اوبامہ اقتدار پر بنے رہنے کے لیے ایران کے ساتھ جنگ کریں گے لیکن اب خود وائٹ ہاؤس کے مکین ہونے کی حیثیت سے ٹرمپ، جنہیں مواخذہ کی کارروائی کا سامنا ہے نے تہران پر حملہ کرکے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔

سنہ 1998 میں جب اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے خلاف مواخذہ کی کارروائی عروج پر تھی نے یہ کہہ کر عراق پر فضائی حملہ کیا تھا کہ ایسا کرنے سے مستقبل میں جنگ سے بچا جا سکتا ہے، اب ٹرمپ نے ایران کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار 'میجر جنرل قاسم سلیمانی' کو بغداد ایئر پورٹ پر ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا۔

اس حملے کے جواز میں ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے یہ استدلال پیش کیا کہ دہلی سے لے کر لندن تک کئی شدت پسندانہ حملوں کے پیچھے سلیمانی کا ہاتھ ہونے کے علاوہ وہ مشرق وسطیٰ میں گزشتہ دو دہایئوں سے شدت پسندی کو فروغ دینے کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کررہا تھا، لیکن امریکہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے کہ اس نے شام اور عراق میں داعش کے (آئی ایس آئی ایس) شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے سلیمانی کی مدد لی تھی۔

اوبامہ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ٹرمپ نے آئی ایس آئی ایس کے چیف ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرایا، دونوں نجی افراد اور سخت گیر شدت پسند گروپوں کے سربراہ تھے، ان کی ہلاکت کے برعکس امریکہ نے سلیمانی کو ختم کرنے کے لیے ایک انوکھا راستہ اختیار کیا، سلیمانی، ایرانی صدر حسن روحانی کے معتمد خاص ہونے کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں ایران کا دبدبہ بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔

ایران اب سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا انتظار کررہا ہے، امریکہ کی اس کارروائی سے پوری دنیا کو تشویش ہے کیونکہ اس کی اس حرکت کی وجہ سے تناؤ اور کشیدگی میں کافی اضافہ ہوا ہے، یہ حقیقی معنوں میں مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں ایک سنگین صورتحال ہے۔

اپنے دور اقتدار میں ٹرمپ نے دو متنازع فیصلے لئے۔ پہلا یہ کہ اس نے ماحولیات پر پڑ رہے منفی اثرات کو روکنے کے لیے پیرس میں ہوئے معاہدے سے علیحدگی اختیار کی۔ دوسرا ایران کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے سے کنارہ کشی۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنے اور کرنے میں دہرا معیار ہے کیونکہ یہ دونوں معاہدوں میں یکطرفہ طور پر باہر آئی۔

ایران کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے سے باہر نکلنے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے دو غیر معمولی اقدامات اٹھائے، ان میں سے ایک بیت المقدس کو اسرائیل کا ہے کہہ کر دارلخلافہ تسلیم کرنا کہ اس سے وسطی ایشیا کا بحران حل ہو جائےگا اور دوسرا یہ کہ ایران کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لیے اس ملک سے تیل کے درآمد پر روک۔

گزشتہ برس خلیج میں ایران کے دو تیل ٹینکروں پر حملے اور امریکی بحریہ کے ایک ڈروان کو گرائے جانے کے بعد سے ایران اور امریکہ میں جنگ جیسی صورتحال ہے۔

ایران کی فوج کے کمپیوٹر نظام پر سائبر حملے کے علاوہ امریکہ نے ایران کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سلیمانی (جس نے لبنان، عراق، شام اور یمن میں اپنا ایک ایسا مضبوط نظام بنایا تھا کہ اس کی مرضی کے بغیر وہاں پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا )کو قتل کیا۔

امریکہ کو اس بات پر یقین ہوگا کہ سلیمانی کی ہلاکت سے خطرہ زیادہ نہیں بڑھے گا لیکن اس واقعہ کے مضمرات صرف مشرق وسطیٰ تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔

بھارت میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے، ملک کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اگر کچھ شیعہ نوجوانوں نے دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا۔

اپنی غلط حکمت عملیوں کی پردہ پوشی کے لیے ٹرمپ 9/11 حملوں کو کچھ دوسری کڑیوں سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں، امریکہ کے نائب صدر 'مائک پنس' اب یہ دعویٰ لے کر سامنے آئے ہیں کہ 9/11 کے حملوں کے حوالے سے سلیمانی نے 10 سے 12 شدت پسندوں کو خفیہ طریقے سے افغانستان پہنچا دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کئی دفاعی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سلیمانی نے افغانستان میں طالبان پر حملوں کے لیے امریکہ کی مدد کی تھی۔

ایک جانب جہاں مشرق وسطیٰ پہلے ہی شیعہ اور سنی گروپوں میں ہو رہے تصادم کی وجہ سے ایک جنگی خطہ بن گیا ہے تو دوسری جانب امریکہ کی جانب سے بغداد میں سلیمانی پر حملے نے کسی بھی طرح اس لگی آگ پر پانی چھڑکنے کا کام نہیں کیا ہے۔

عراق کے وزیراعظم نے بغداد میں سلیمانی پر امریکہ حملے کو ملک کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف حملہ قرار دیا ہے جبکہ عراقی پارلیمان نے ملک سے امریکی افواج کو باہر نکالنے سے متعلق ایک قرار داد منظور کی۔

ایک جانب امریکہ ہے اور دوسری جانب ایران، جس سے یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ عراق، شام کی ہی طرح در پردہ جنگ کا ایک نیا محاذ نہ بن جائے۔

جب بھی مشرق وسطیٰ میں تناؤ اور کشیدگی بڑھ جاتی ہے تو اس کا براہ راست اثر تیل کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔

کیا اقوام متحدہ کی یہ امید پوری ہوگی کہ تمام طرفین کی جانب سے ضبط و تحمل سے ممکنہ جنگ ٹالی جا سکتی ہے؟ کیا سلیمانی کی افواج کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ممکنہ حملوں سے پیدا خطرات کو روکا جا سکتا ہے؟

ان سوالوں کا جواب صرف آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرون ملک مختلف مقامات سے امریکی افواج کو واپس بلا لیں گے تا کہ ان ممالک کو جنگوں سے آزاد کر سکیں لیکن انہوں نے اپنی طاقت کا استعمال کرکے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود مسائل کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔

سنہ 2011 میں ٹرمپ ٹویٹر پر بار بار اس خیال کا اظہار کررہے تھے کہ بارک اوبامہ اقتدار پر بنے رہنے کے لیے ایران کے ساتھ جنگ کریں گے لیکن اب خود وائٹ ہاؤس کے مکین ہونے کی حیثیت سے ٹرمپ، جنہیں مواخذہ کی کارروائی کا سامنا ہے نے تہران پر حملہ کرکے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔

سنہ 1998 میں جب اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے خلاف مواخذہ کی کارروائی عروج پر تھی نے یہ کہہ کر عراق پر فضائی حملہ کیا تھا کہ ایسا کرنے سے مستقبل میں جنگ سے بچا جا سکتا ہے، اب ٹرمپ نے ایران کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار 'میجر جنرل قاسم سلیمانی' کو بغداد ایئر پورٹ پر ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا۔

اس حملے کے جواز میں ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے یہ استدلال پیش کیا کہ دہلی سے لے کر لندن تک کئی شدت پسندانہ حملوں کے پیچھے سلیمانی کا ہاتھ ہونے کے علاوہ وہ مشرق وسطیٰ میں گزشتہ دو دہایئوں سے شدت پسندی کو فروغ دینے کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کررہا تھا، لیکن امریکہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے کہ اس نے شام اور عراق میں داعش کے (آئی ایس آئی ایس) شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے سلیمانی کی مدد لی تھی۔

اوبامہ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ٹرمپ نے آئی ایس آئی ایس کے چیف ابو بکر البغدادی کو ہلاک کرایا، دونوں نجی افراد اور سخت گیر شدت پسند گروپوں کے سربراہ تھے، ان کی ہلاکت کے برعکس امریکہ نے سلیمانی کو ختم کرنے کے لیے ایک انوکھا راستہ اختیار کیا، سلیمانی، ایرانی صدر حسن روحانی کے معتمد خاص ہونے کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں ایران کا دبدبہ بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔

ایران اب سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا انتظار کررہا ہے، امریکہ کی اس کارروائی سے پوری دنیا کو تشویش ہے کیونکہ اس کی اس حرکت کی وجہ سے تناؤ اور کشیدگی میں کافی اضافہ ہوا ہے، یہ حقیقی معنوں میں مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں ایک سنگین صورتحال ہے۔

اپنے دور اقتدار میں ٹرمپ نے دو متنازع فیصلے لئے۔ پہلا یہ کہ اس نے ماحولیات پر پڑ رہے منفی اثرات کو روکنے کے لیے پیرس میں ہوئے معاہدے سے علیحدگی اختیار کی۔ دوسرا ایران کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے سے کنارہ کشی۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنے اور کرنے میں دہرا معیار ہے کیونکہ یہ دونوں معاہدوں میں یکطرفہ طور پر باہر آئی۔

ایران کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے سے باہر نکلنے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے دو غیر معمولی اقدامات اٹھائے، ان میں سے ایک بیت المقدس کو اسرائیل کا ہے کہہ کر دارلخلافہ تسلیم کرنا کہ اس سے وسطی ایشیا کا بحران حل ہو جائےگا اور دوسرا یہ کہ ایران کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لیے اس ملک سے تیل کے درآمد پر روک۔

گزشتہ برس خلیج میں ایران کے دو تیل ٹینکروں پر حملے اور امریکی بحریہ کے ایک ڈروان کو گرائے جانے کے بعد سے ایران اور امریکہ میں جنگ جیسی صورتحال ہے۔

ایران کی فوج کے کمپیوٹر نظام پر سائبر حملے کے علاوہ امریکہ نے ایران کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سلیمانی (جس نے لبنان، عراق، شام اور یمن میں اپنا ایک ایسا مضبوط نظام بنایا تھا کہ اس کی مرضی کے بغیر وہاں پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا )کو قتل کیا۔

امریکہ کو اس بات پر یقین ہوگا کہ سلیمانی کی ہلاکت سے خطرہ زیادہ نہیں بڑھے گا لیکن اس واقعہ کے مضمرات صرف مشرق وسطیٰ تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔

بھارت میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے، ملک کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اگر کچھ شیعہ نوجوانوں نے دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا۔

اپنی غلط حکمت عملیوں کی پردہ پوشی کے لیے ٹرمپ 9/11 حملوں کو کچھ دوسری کڑیوں سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں، امریکہ کے نائب صدر 'مائک پنس' اب یہ دعویٰ لے کر سامنے آئے ہیں کہ 9/11 کے حملوں کے حوالے سے سلیمانی نے 10 سے 12 شدت پسندوں کو خفیہ طریقے سے افغانستان پہنچا دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کئی دفاعی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سلیمانی نے افغانستان میں طالبان پر حملوں کے لیے امریکہ کی مدد کی تھی۔

ایک جانب جہاں مشرق وسطیٰ پہلے ہی شیعہ اور سنی گروپوں میں ہو رہے تصادم کی وجہ سے ایک جنگی خطہ بن گیا ہے تو دوسری جانب امریکہ کی جانب سے بغداد میں سلیمانی پر حملے نے کسی بھی طرح اس لگی آگ پر پانی چھڑکنے کا کام نہیں کیا ہے۔

عراق کے وزیراعظم نے بغداد میں سلیمانی پر امریکہ حملے کو ملک کی خود مختاری اور سلامتی کے خلاف حملہ قرار دیا ہے جبکہ عراقی پارلیمان نے ملک سے امریکی افواج کو باہر نکالنے سے متعلق ایک قرار داد منظور کی۔

ایک جانب امریکہ ہے اور دوسری جانب ایران، جس سے یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ عراق، شام کی ہی طرح در پردہ جنگ کا ایک نیا محاذ نہ بن جائے۔

جب بھی مشرق وسطیٰ میں تناؤ اور کشیدگی بڑھ جاتی ہے تو اس کا براہ راست اثر تیل کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔

کیا اقوام متحدہ کی یہ امید پوری ہوگی کہ تمام طرفین کی جانب سے ضبط و تحمل سے ممکنہ جنگ ٹالی جا سکتی ہے؟ کیا سلیمانی کی افواج کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ممکنہ حملوں سے پیدا خطرات کو روکا جا سکتا ہے؟

ان سوالوں کا جواب صرف آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.