چین اور دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ کے بعد اب ڈبلیو ایچ او نے صورتحال کے تعین کے لئے عالمی ادارہ صحت کی ہنگامی میٹنگ طلب کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس آڈہانوم گیبریس نے جنیوا سے آن لائن نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چین میں اور عالمی سطح پر اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ڈبلیو ایچ او کی اولین ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہر دن کے ہر لمحہ کی صورتحال کی نگرانی کررہے ہیں۔ ایمرجنسی کمیٹی اس بحران سے نمٹنے کے طریقوں پر سفارشات بھی پیش کرے گی۔
صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے دنیا کے مختلف دارالحکومتوں سے پریس کانفرنس میں شرکت کے لئے صحافیوں کے لیے انتظاامات کئے گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت کی کمیٹی نے 2 روز جاری رہنے والی ملاقات میں فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ وائرس چین میں ایک شدید تشویش کا باعث ہے لہذا یہ اب تک عالمی ایمرجنسی نہیں تھا۔
اس وقت مذکورہ معاملہ پر ووٹ تقریباً تقسیم تھا اور آج ہونے والے اجلاس میں یہ تعین کیا جائے گا کہ وائرس اب ایمرجنسی ہے یا نہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی ڈیزیز یونٹ کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ وان کیرکہو نے تمام اقوام کو خوف و ہراس سے بچنے اور بیماری پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کے لئے ہماری ہدایت ہے کہ کیسز کی فوری شناخت کریں، مریضوں کو الگ تھلگ کریں اور علاج فراہم کریں اور گھر کے افراد سمیت سب سے انسانی روابط سے بچیں۔
ڈاکٹر ماریہ وان نے حکومتوں، ایجنسیوں اور میڈیا کو ذمہ داری سے خطرات بیان کرنے اور گمراہ کن معلومات /اطلاعات سے گریز کی بھی ہدایت کی۔
وائرس ہوا سے پھیلنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تنفس کے ذریعہ اور براہ راست جسمانی روابط سے منتقل ہوتا ہے۔
ہیلتھ ایمرجنسیز پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر ڈاکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ اس وائرس کا تیزی سے پھیلاؤ تشویش کا باعث ہے لیکن اب تک انہیں یقین نہیں کہ ایسا کیسے ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پاس موجود علم کا استعمال کرتے ہیں اور وائرس کو روکنے کے لیے حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہیں، ہم پیچھے ہٹنے اور کچھ نہ کرنے کا انتخاب نہیں کرسکتے۔
علاج کی تلاش کے لیے سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان بڑے پیمانے پر اشتراک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت چین اور دیگر قوموں کے ساتھ مل کر اس حوالہ سے تعین کے لئے کام کررہا ہے۔
ڈاکٹر مائیکل ریان نے ممالک پر وائرس کے خاتمہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ 194 ممالک انفرادی اقدامات پر عملدرآمد کررہے ہیں جس کی وجہ سے معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر تباہی کا امکان ہے۔
ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ عالمی برادری کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مالی ذرائع اور سیاسی خواہش موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم وائرس کے مرکز پر سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے پر چین سے اتفاق کرتے ہیں کیونکہ اس طرح اس سے نمٹنا آسان ہے لیکن اگر آپ کے پاس متعدد مراکز ہوں تو یہ مشکل ہے'۔