افغان فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف یاسین ضیا نے ابو محسن المصری کے نام سے مشہور القاعدہ کے رہنما حسام عبد الرؤف کے قتل کے رد عمل میں کہا ہے کہ طالبان نے ابھی تک القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات منقطع نہیں کیا ہے۔
ٹولو نیوز کے مطابق لانگ وار جریدے کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے تصدیق کی ہے کہ اکتوبر کے اوائل میں ہی ال مصری کو صوبہ غزنی میں مارا گیا تھا۔
"انہوں نے (طالبان) نے القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں کیے ہیں۔ ان کے خطے کے دیگر دہشت گرد گروہوں اور پاکستانیوں سے تعلقات ہیں، ضیا نے کہا کہ ہلمند میں وہ واضح طور پر کندھے سے کندھا ملا کر کام کر رہے ہیں۔''
طالبان امریکہ کےساتھ ہوئے معاہدے کا پابندعہد ہے کہ وہ ملک میں کسی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ تعلقات نہیں رکھے گا۔
المصری 1980 کی دہائی میں القاعدہ سے جڑا اور القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا قابل اعتماد معاون بن گیا۔
صدر اشرف غنی نے اتوار کے روز کہا کہ "اسلامی جمہوریہ افغانستان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے پر عزم ہے اور اس ملک کو ایک بار پھر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دے گا۔ ہم بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مشترکہ مشن سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔''
غنی نے مزید کہا کہ "ہماری قومی دفاع اور سیکیورٹی فورسز اپنے دس ملین شہریوں کو کبھی بھی بے گھر نہیں ہونے دیں گی۔''
طلوع نیوز نے لانگ وار جرنل کے حوالے سے مزید کہا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان سے وابستہ افراد کا مصری کے ٹھکانے کو تباہ کرنے میں کوئی کردار تھا لیکن انہوں نے یہ ذکر کیا کہ یہ امریکی طالبان معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔
طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ تنازعہ والے علاقے میں القاعدہ کے رکن کی ہلاکت کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
یہ بات روسی صدر ولادیمیر پوتن کی پشت پر کہی گئی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی مسلسل موجودگی فائدہ مند ہے۔
"ابتدا میں ہم نے افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کی حمایت کی اور اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ افغانستان میں امریکی موجودگی ہمارے بیرونی مفادات کے منافی نہیں ہے" پوتن نے طلوع نیوز کے حوالے سے روسی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا۔