طالبان نے اتوار کو کہا کہ وہ مارچ 2022 میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل طور سے کھول دیں گے۔Universities in Afghanistan to Reopen in March
طلوع نیوز کے مطابق، اطلاعات و ثقافت کے نائب وزیر اور امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ طالبان تعلیم کے خلاف نہیں ہے لیکن اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو مکمل طور پر الگ کیا جانا چاہیے۔
مجاہد نے کہا کہ وزارت تعلیم اور وزارت اعلیٰ تعلیم دو ماہ میں اعلیٰ اسکولوں اور سرکاری یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے Universities in Afghanistan کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بیشتر صوبوں میں ہائر اسکولز دوبارہ کھول دیے گئے ہیں اور کچھ صوبوں میں معاشی مسائل کی وجہ سے تاحال بند ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Taliban on Female Education: امارت اسلامیہ افغانستان خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ لڑکیوں اور لڑکوں کو کلاس رومز میں الگ رکھا جائے گا اور وہ افغانستان کے ارد گرد لڑکیوں کے لیے مزید ہاسٹل بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً چھ ماہ سے افغانستان بھر میں 150 سرکاری یونیورسٹیاں بند ہیں جبکہ 40 نجی یونیورسٹیوں میں لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اگست کے وسط میں طالبان کے قبضے کے بعد سے لڑکیوں کو صرف سرکاری اسکولوں میں چھٹی جماعت تک جانے کی اجازت ہے، افغانستان کے بیشتر حصوں میں ساتویں جماعت سے آگے کی لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Taliban Supreme Leader on Women's Rights: عورت جائیداد نہیں ہے بلکہ قابل عزت اور ایک آزاد انسان ہیں
لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش پر ملک کے اندر اور عالمی برادری کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ دریں اثناء، متعدد طالبات جو اسکول سے باہر رہتی ہیں، نے کہا کہ امارت اسلامیہ کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے اور نئے سال میں اسکول دوبارہ کھولنا چاہیے۔
ایک طالب علم بہارا نے کہا "ہم نے بہت سارے وعدے سن رکھے ہیں لیکن ان وعدوں کو عملی شکل دینا چاہیے۔ ہم کووڈ 19 کی وجہ سے اور پھر ملک میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے اسکول جانے سے محروم رہے،"۔
ایک دوسرے طالب علم نے کہا، "ہم اسکولوں کو فوری طور پر دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور حکومت کو اس کے لیے زمین ہموار کرنی چاہیے۔"
طلوع نیوز کی خبر کے مطابق، متعدد خواتین اساتذہ نے کہا کہ انہیں پانچ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور انہوں نے امارت اسلامیہ سے ان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے زور دیا ہے۔
ایک ٹیچر سہیلہ عمر زادہ نے کہا ہمیں پچھلے پانچ ماہ سے اسکول نہیں بلایا گیا۔ یہاں تک کہ لڑکوں کے اسکولوں کے اساتذہ کو بھی غیر یقینی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے"۔