ETV Bharat / international

امن معاہدہ، افغانستان کیلئے اُمید کی کرن - طالبان امریکہ امن معاہدہ

بھارت جس نے افغانستان کی بحالی کی نیت سے وہاں کے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی میں 75 ہزار کروڑ روپے لگادیے ہیں، لیکن اس کے بعد بھی وہ دہشت گردی کی بھاری قیمت چکاتا آیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں بھارتی مفادات کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے۔

امن معاہدہ، افغانستان کیلئے اُمید کی کرن
امن معاہدہ، افغانستان کیلئے اُمید کی کرن
author img

By

Published : Mar 5, 2020, 4:36 PM IST

سنہ 2001میں امریکہ نے آپریشن اینڈیورنگ فریڈم اِن افغانستان یا 'آپریشن دیرپا آزادی' کے تحت پڑوسی ممالک کی مدد سے افغانستان میں قیامِ امن کیلئے جنگ چھیڑی۔ امریکہ کی اس جنگ کا اصل مقصد القائدہ اور طالبان کا خاتمہ کرنا تھا۔ حالانکہ امریکی صدر اوبامہ کے دور میں اسامہ بن لادن کو مار کر امریکہ نے القائدہ کو قیادت سے محروم تو کردیا تھا لیکن طالبان نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سابق امریکی نائب صدر ڈِک چینی نے کہا تھا کہ افغان جنگ، خلیجی جنگ کے برعکس ہے اور یہ جنگ مسلسل جاری رہے گی۔ لیکن امریکہ نے 18سال سے اس جاری خون خرابہ کو ختم کرنے کیلئے طالبان کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔

دوحہ میں ہونے والا امریکہ اور طالبان کے نمائندگان کے درمیان یہ معاہدہ امن کے چراغ کو جلانے کے مانند ہے۔ جانبین میں یہ معاہدہ چار بنیادی معاملات پر ہوا ہے۔ طالبان نے یہ ضمانت دی ہے کہ افغانستان کی سرزمین میں امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو طالبان کے کسی رکن، دیگر افراد یا جنگجوؤں گروپ کی جانب سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

امریکہ نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ وہ مقررہ مدت میں افغانستان سے اپنی فوج انخلاء کرلے گا۔ ملک میں قیام امن کے دائمی ایجنڈا کے تحت 10مارچ سے مختلف سطحوں پر شروع ہونے جارہے مذاکرات میں ملک کے مستقبل کے نقشِ راہ کی تیاری اور پھر اس کے نفاذ کے نظام پر غور و فکر اور اس جیسی دیگر اہم چیزیں بھی معاہدہ کا حصہ ہیں۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے البتہ اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی پر آمادہ نہیں ہیں جیسا کہ دوحہ معاہدہ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایسے میں کوئی یہ پیشن گوئی کرنے کی حالات میں کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ امن معاہدہ افغانستان کیلے اپنے اندر کیا کچھ لیے ہوئے ہے، جہاں بموں کی گونج اور کلاشنکوف کی گن گرج روز کا معمول ہے۔

اس سے قبل صدر ٹرمپ نے جولائی 2019میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کو روئے زمین سے مٹا بھی سکتے تھے لیکن وہ ایک کروڑ لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ بھارت بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تشویش ظاہر کرتا رہا ہے۔ امریکہ نے ہمارے خدشات کی جانب کوئی توجہ نہیں دیا یہاں تک کہ دہشت گردی کے شعلوں نے اسکے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو ٹاوروں کو اپنا نشانہ بنایا، جسکے بعد امریکہ کو کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

امریکہ کے سابق صدر جارج بُش نے اس جنگ کو ایک پوشیدہ دشمن کو فتح کرنے کی جستجو قرار دیا تھا، جس کے بعد سنہ 2001کی اس جنگ میں کابل، قندھار، جلال آباد اور ہیرات میں سینکڑوں بے گناہ مارے گئے تھے۔اگرچہ اقوامِ متحدہ نے سنہ 2014میں جنگ کے خاتمہ کا اشاہ دیا تھا۔

حکومت اور غیر ملکی فوج کے ہاتھوں جنگ کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 717 شہری مارے جاچکے تھے جبکہ طالبان کے حملوں میں 531افراد ہلاک ہوگئے تھے۔مابعد جنگ جائزوں میں ٹرمپ نے بڑی شدت کے ساتھ لاکھوں ڈالر کے اخراجات اور 2400امریکی فوجیوں کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے اس جنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔

حالانکہ طالبان اپنی گھناونے خون خرابہ سے باز نہیں آئے ہیں اور اگر امریکہ اگلے چار ماہ میں افغانستان سے اپنی بیشتر فوج نکال بھی لیتا ہے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ جنگ کے بھوکے طالبان ملک میں امن خراب کرنے سے باز رہیں گے، لیکن سُپر پاور کسی بھی طرح افغانستان نام کے جال سے رہائی پا کر پھر سے دنیا پراپنا غلبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔

اپریل 2018 میں سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق القائدہ طالبان کے ساتھ تقریبا ضم ہی ہوچکی تھی اور طالبان کم از کم 20دہشت گرد تنظیموں کے مفادات کی محافظ ہے۔طالبان پر ایک امن معاہدے کے بل پر بھروسہ کرنا بے وقوفی کے علاہو کچھ بھی نہیں ہے، جو اب بھی تقریبا نصف افغانستان پر حکمرانی کرتے ہیں۔

طالبان نے امن معاہدے میں امریکی مطالبے کے مطابق یہ یقین دہانی کرائی تو ہے کہ انکا ملک کسی طرح کے بین الاقوامی حملوں کی منصوبہ بندی کیلئے استعمال نہیں ہوگا لیکن امن معاہدہ کے مباحثوں میں دہشت گردی کی تعریف سے متعلق سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔جب خود اقوامِ متحدہ بھی دہشت گردی کی مناسب تعریف نہیں کرسکا ہے، تو امریکہ نے جبرا امن کا معاہدہ کرکے افغانستان کو اپنی قسمت پر چھوڑ دیا ہے۔

بھارت جس نے افغانستان کی بحالی کی نیت سے وہاں کے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی میں 75 ہزار کروڑ روپے لگادیے ہیں،لیکن اس کے بعد بھی وہ دہشت گردی کی بھاری قیمت چکاتا آیا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں بھارتی مفادات کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے۔

دنیا میں سپلائی ہونے والی منشیات(ہیروئن)کا 90فیصد افغانستان سے آتا ہے بلکہ طالبان کے مالیات کا قریب 60 فیصد فقط منشیات کی اسمگلنگ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔البتہ انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ نے انکشاف کیا ہے کہ ہیروئن کی پیداوار کیلئے درکار اہم ترین کیمیکل بھارت سے سپلائی ہوتا ہے۔لہٰذا بھارت کو داخلی ڈرگ مافیا کو لگام دینے کے ساتھ ساتھ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے طالبان کی یہ سپلائی لائن کاٹ کر انکی حکمرانی کا خاتمہ کرنا چاہیئے۔

سنہ 2001میں امریکہ نے آپریشن اینڈیورنگ فریڈم اِن افغانستان یا 'آپریشن دیرپا آزادی' کے تحت پڑوسی ممالک کی مدد سے افغانستان میں قیامِ امن کیلئے جنگ چھیڑی۔ امریکہ کی اس جنگ کا اصل مقصد القائدہ اور طالبان کا خاتمہ کرنا تھا۔ حالانکہ امریکی صدر اوبامہ کے دور میں اسامہ بن لادن کو مار کر امریکہ نے القائدہ کو قیادت سے محروم تو کردیا تھا لیکن طالبان نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سابق امریکی نائب صدر ڈِک چینی نے کہا تھا کہ افغان جنگ، خلیجی جنگ کے برعکس ہے اور یہ جنگ مسلسل جاری رہے گی۔ لیکن امریکہ نے 18سال سے اس جاری خون خرابہ کو ختم کرنے کیلئے طالبان کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔

دوحہ میں ہونے والا امریکہ اور طالبان کے نمائندگان کے درمیان یہ معاہدہ امن کے چراغ کو جلانے کے مانند ہے۔ جانبین میں یہ معاہدہ چار بنیادی معاملات پر ہوا ہے۔ طالبان نے یہ ضمانت دی ہے کہ افغانستان کی سرزمین میں امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو طالبان کے کسی رکن، دیگر افراد یا جنگجوؤں گروپ کی جانب سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

امریکہ نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ وہ مقررہ مدت میں افغانستان سے اپنی فوج انخلاء کرلے گا۔ ملک میں قیام امن کے دائمی ایجنڈا کے تحت 10مارچ سے مختلف سطحوں پر شروع ہونے جارہے مذاکرات میں ملک کے مستقبل کے نقشِ راہ کی تیاری اور پھر اس کے نفاذ کے نظام پر غور و فکر اور اس جیسی دیگر اہم چیزیں بھی معاہدہ کا حصہ ہیں۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے البتہ اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی پر آمادہ نہیں ہیں جیسا کہ دوحہ معاہدہ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایسے میں کوئی یہ پیشن گوئی کرنے کی حالات میں کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ امن معاہدہ افغانستان کیلے اپنے اندر کیا کچھ لیے ہوئے ہے، جہاں بموں کی گونج اور کلاشنکوف کی گن گرج روز کا معمول ہے۔

اس سے قبل صدر ٹرمپ نے جولائی 2019میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کو روئے زمین سے مٹا بھی سکتے تھے لیکن وہ ایک کروڑ لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ بھارت بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تشویش ظاہر کرتا رہا ہے۔ امریکہ نے ہمارے خدشات کی جانب کوئی توجہ نہیں دیا یہاں تک کہ دہشت گردی کے شعلوں نے اسکے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دو ٹاوروں کو اپنا نشانہ بنایا، جسکے بعد امریکہ کو کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

امریکہ کے سابق صدر جارج بُش نے اس جنگ کو ایک پوشیدہ دشمن کو فتح کرنے کی جستجو قرار دیا تھا، جس کے بعد سنہ 2001کی اس جنگ میں کابل، قندھار، جلال آباد اور ہیرات میں سینکڑوں بے گناہ مارے گئے تھے۔اگرچہ اقوامِ متحدہ نے سنہ 2014میں جنگ کے خاتمہ کا اشاہ دیا تھا۔

حکومت اور غیر ملکی فوج کے ہاتھوں جنگ کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 717 شہری مارے جاچکے تھے جبکہ طالبان کے حملوں میں 531افراد ہلاک ہوگئے تھے۔مابعد جنگ جائزوں میں ٹرمپ نے بڑی شدت کے ساتھ لاکھوں ڈالر کے اخراجات اور 2400امریکی فوجیوں کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے اس جنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔

حالانکہ طالبان اپنی گھناونے خون خرابہ سے باز نہیں آئے ہیں اور اگر امریکہ اگلے چار ماہ میں افغانستان سے اپنی بیشتر فوج نکال بھی لیتا ہے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ جنگ کے بھوکے طالبان ملک میں امن خراب کرنے سے باز رہیں گے، لیکن سُپر پاور کسی بھی طرح افغانستان نام کے جال سے رہائی پا کر پھر سے دنیا پراپنا غلبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔

اپریل 2018 میں سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق القائدہ طالبان کے ساتھ تقریبا ضم ہی ہوچکی تھی اور طالبان کم از کم 20دہشت گرد تنظیموں کے مفادات کی محافظ ہے۔طالبان پر ایک امن معاہدے کے بل پر بھروسہ کرنا بے وقوفی کے علاہو کچھ بھی نہیں ہے، جو اب بھی تقریبا نصف افغانستان پر حکمرانی کرتے ہیں۔

طالبان نے امن معاہدے میں امریکی مطالبے کے مطابق یہ یقین دہانی کرائی تو ہے کہ انکا ملک کسی طرح کے بین الاقوامی حملوں کی منصوبہ بندی کیلئے استعمال نہیں ہوگا لیکن امن معاہدہ کے مباحثوں میں دہشت گردی کی تعریف سے متعلق سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔جب خود اقوامِ متحدہ بھی دہشت گردی کی مناسب تعریف نہیں کرسکا ہے، تو امریکہ نے جبرا امن کا معاہدہ کرکے افغانستان کو اپنی قسمت پر چھوڑ دیا ہے۔

بھارت جس نے افغانستان کی بحالی کی نیت سے وہاں کے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی میں 75 ہزار کروڑ روپے لگادیے ہیں،لیکن اس کے بعد بھی وہ دہشت گردی کی بھاری قیمت چکاتا آیا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں بھارتی مفادات کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے۔

دنیا میں سپلائی ہونے والی منشیات(ہیروئن)کا 90فیصد افغانستان سے آتا ہے بلکہ طالبان کے مالیات کا قریب 60 فیصد فقط منشیات کی اسمگلنگ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔البتہ انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ نے انکشاف کیا ہے کہ ہیروئن کی پیداوار کیلئے درکار اہم ترین کیمیکل بھارت سے سپلائی ہوتا ہے۔لہٰذا بھارت کو داخلی ڈرگ مافیا کو لگام دینے کے ساتھ ساتھ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے طالبان کی یہ سپلائی لائن کاٹ کر انکی حکمرانی کا خاتمہ کرنا چاہیئے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.