پاکستان نے طورخم کے بعد پاک افغان چمن سرحد پر بھی پیدل آمدورفت اور مقامی سطح کی تجارت کو پہلی بار باضابطہ قانونی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اردو نیوز کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ 70 سال بعد پہلی بار ایسا ہوگا کہ اب آمدورفت صرف پاسپورٹ پر ہوگی، تاہم سرحدی علاقوں کے مکینوں کو محدود رعایت دینے پر غور کرنے کے لیے چیف سیکریٹری بلوچستان کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
حکام کے مطابق یہ فیصلہ افغانستان سے چمن کے راستے دہشت گردوں اور نا پسندیدہ عناصر کے پاکستان میں داخل ہونے کے خدشات اور بڑے پیمانے پر ہونے والی اسمگلنگ پر روک لگانے کے لیے کیا گیا ہے۔
چمن کے سیاسی، قبائلی اور تاجر رہنماﺅں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سرحد پر آمدورفت کو قانونی بنانے اور چھوٹے پیمانے پر ہونے والی تجارت پر بھاری ٹیکسز کے نفاذ سے بلوچستان کے سرحدی علاقے کے تقریباً 20 سے 25 ہزار افراد بے روزگار ہو جائیں گے، جبکہ اس کے اثرات کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کی معیشت پر بھی پڑیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: Kandhar Suicide Attack: یو این اور پاکستان کی خودکش حملے کی مذمت
چمن، افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 26 سو کلومیٹر طویل سرحد پر دو بڑی سرحدی گزر گاہوں میں سے ایک ہے، جو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 120 کلومیٹر دور ضلع قلعہ عبداللہ میں واقع ہے۔ خیبر پختونخوا میں طورخم سرحد پر پاکستان نے تین سال قبل ہی آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط لازمی قرار دے دی تھی۔ تاہم چمن سرحد پر قیام پاکستان سے لے کر اب تک پیدل آمدورفت کا کوئی قانونی طریقہ کار رائج نہیں تھا۔
ایک سرکاری اندازے کے مطابق چمن سرحد سے روزانہ تقریباً 25 سے 30 ہزار پاکستانی اور افغانی باشندے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر سرحد عبور کرتے تھے۔