ETV Bharat / international

PTI files presidential reference in SC: حکومت پاکستان نے سیاسی بغاوت سے نمٹنے کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ میں صدر کے ایک ریفرنس کے ذریعے پوچھا کہ موجودہ آئینی اور قانونی فریم ورک کے تحت باغی رہنما، فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کو کیسے روکا جائے اور اسے ختم کیا جائے۔ اس کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔؟ PTI files presidential reference in SC

پاکستان سپریم کورٹ
پاکستان سپریم کورٹ
author img

By

Published : Mar 21, 2022, 10:55 PM IST

پاکستان کی قومی اسمبلی میں 25 مارچ کو پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد سے قبل، عمران خان حکومت نے سپریم کورٹ کو ایک صدارتی ریفرنس دیا ہے، جس میں ان کی پارٹی کے ارکان کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اور کارروائیوں کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی ہے، جو پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔PTI files presidential reference in SC

حکومت پاکستان نے پارٹی رکن کی نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ سے تجاویز اور وضاحت طلب کرتے ہوئے چار اہم سوالات اٹھائے ہیں۔

سیاسی بغاوت اور ہارس ٹریڈنگ کے جاری عمل کو 'فلور کراسنگ کا ناسور' قرار دیتے ہوئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سیاست میں استحکام حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ’’منتخب ارکان کی بغاوت کئی نقائص پر مشتمل ہوتا ہے، پہلا یہ کہ، اگر رکن کا انتخاب منشور کی بنیاد پر کیا گیا ہے، یا کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی وجہ سے، یا عوامی اہمیت کے کسی سوال پر اس کے مخصوص موقف کی وجہ سے تو پھر بغاوت واضح طور پر عوام کے اعتماد کی صریح خلاف ورزی ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:

No Confidence Motion in Pakistan: تحریک عدم اعتماد، کیا عمران خان کے سر پر تاج رہے گا؟

اس میں مزید کہا گیا ہے، "اگر اس کا ضمیر اسے ایسا کرنے کو کہتا ہے، یا اگر وہ اسے مناسب سمجھتا ہے، تو اس کے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ وہ اپنے نمائندہ کردار کو ترک کر دے، جس کی وہ اب نمائندگی نہیں کرتا ہے اور دوبارہ انتخابات میں حصہ لیتا ہے۔اس سے ایک قابل احترام، صاف ستھری سیاست اور اصولی قیادت کے ظہور میں مدد ملے گی۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی طرف سے تیار کردہ ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے ہی ترقی کر سکتے ہیں، جب کہ مطمئن لوگ برباد ہوتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا، "سینیٹ کے انتخابات کے تناظر میں، بمشکل ایک سال قبل، ہارس ٹریڈنگ کے واقعات کے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز کی صورت میں شواہد سامنے آئے تھے۔ اس سلسلے میں کچھ بھی معنی خیز کاروائی نہیں کی گئی"۔

جبکہ آرٹیکل 63 میں بیان کردہ دیگر تمام نااہل افراد کے محدود اور قابل پیمائش نتائج ہیں، جمہوری عمل اور سیاست کو منحرف کرنے والوں کے ذریعے پہنچنے والا نقصان نہ صرف ناقابلِ تلافی ہے بلکہ مسلسل ہو ہوتا رہتا ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:

No Confidence Motion in Pakistan: پاکستان قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پارلیمنٹ کا اجلاس پچیس مارچ کو طلب کرلیا

باغی رہنماؤں کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے تاحیات الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دینا جیسا کہ آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت دیا گیا ہے۔

ایسے ممبران کو کبھی بھی پارلیمنٹ میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے اور نہ ہی ان کے داغدار ووٹوں کو کسی بھی آئین میں شمار کیا جانا چاہیے۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی بڑی مشکل میں پھنس چکے ہیں کیونکہ حکمران پی ٹی آئی کے تقریباً دو درجن ناراض ایم این ایز ان کے خلاف کھل کر سامنے آچکے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی اپوزیشن پارٹیوں کی درخواست پر اتوار کو قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو صبح 11 بجے بلایاہے۔

8 مارچ کو اپوزیشن پارٹیوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا تھا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں 25 مارچ کو پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد سے قبل، عمران خان حکومت نے سپریم کورٹ کو ایک صدارتی ریفرنس دیا ہے، جس میں ان کی پارٹی کے ارکان کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اور کارروائیوں کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی ہے، جو پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔PTI files presidential reference in SC

حکومت پاکستان نے پارٹی رکن کی نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ سے تجاویز اور وضاحت طلب کرتے ہوئے چار اہم سوالات اٹھائے ہیں۔

سیاسی بغاوت اور ہارس ٹریڈنگ کے جاری عمل کو 'فلور کراسنگ کا ناسور' قرار دیتے ہوئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سیاست میں استحکام حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ’’منتخب ارکان کی بغاوت کئی نقائص پر مشتمل ہوتا ہے، پہلا یہ کہ، اگر رکن کا انتخاب منشور کی بنیاد پر کیا گیا ہے، یا کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی وجہ سے، یا عوامی اہمیت کے کسی سوال پر اس کے مخصوص موقف کی وجہ سے تو پھر بغاوت واضح طور پر عوام کے اعتماد کی صریح خلاف ورزی ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:

No Confidence Motion in Pakistan: تحریک عدم اعتماد، کیا عمران خان کے سر پر تاج رہے گا؟

اس میں مزید کہا گیا ہے، "اگر اس کا ضمیر اسے ایسا کرنے کو کہتا ہے، یا اگر وہ اسے مناسب سمجھتا ہے، تو اس کے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ وہ اپنے نمائندہ کردار کو ترک کر دے، جس کی وہ اب نمائندگی نہیں کرتا ہے اور دوبارہ انتخابات میں حصہ لیتا ہے۔اس سے ایک قابل احترام، صاف ستھری سیاست اور اصولی قیادت کے ظہور میں مدد ملے گی۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی طرف سے تیار کردہ ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے ہی ترقی کر سکتے ہیں، جب کہ مطمئن لوگ برباد ہوتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا، "سینیٹ کے انتخابات کے تناظر میں، بمشکل ایک سال قبل، ہارس ٹریڈنگ کے واقعات کے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز کی صورت میں شواہد سامنے آئے تھے۔ اس سلسلے میں کچھ بھی معنی خیز کاروائی نہیں کی گئی"۔

جبکہ آرٹیکل 63 میں بیان کردہ دیگر تمام نااہل افراد کے محدود اور قابل پیمائش نتائج ہیں، جمہوری عمل اور سیاست کو منحرف کرنے والوں کے ذریعے پہنچنے والا نقصان نہ صرف ناقابلِ تلافی ہے بلکہ مسلسل ہو ہوتا رہتا ہے۔"

یہ بھی پڑھیں:

No Confidence Motion in Pakistan: پاکستان قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پارلیمنٹ کا اجلاس پچیس مارچ کو طلب کرلیا

باغی رہنماؤں کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے تاحیات الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دینا جیسا کہ آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت دیا گیا ہے۔

ایسے ممبران کو کبھی بھی پارلیمنٹ میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے اور نہ ہی ان کے داغدار ووٹوں کو کسی بھی آئین میں شمار کیا جانا چاہیے۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی بڑی مشکل میں پھنس چکے ہیں کیونکہ حکمران پی ٹی آئی کے تقریباً دو درجن ناراض ایم این ایز ان کے خلاف کھل کر سامنے آچکے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی اپوزیشن پارٹیوں کی درخواست پر اتوار کو قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو صبح 11 بجے بلایاہے۔

8 مارچ کو اپوزیشن پارٹیوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.