میانمار کی فوج نے ملک بھر میں بغاوت مخالف مظاہرین کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ افواج کی راہ میں رکاوٹ بنے تو انہیں 20 برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
فوج نے بتایا کہ تختہ پلٹ کرنے والے رہنماؤں کے خلاف 'نفرت' بھڑکانے اور ان کے خلاف مظاہرہ کرنے پر 20 برس قید کی سزا اور جرمانے بھی نافذ کیے جائیں گے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق، قانونی تبدیلیوں کا اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب بکتربند گاڑیاں کئی شہروں کی سڑکوں پر نظر آئیں۔
حالیہ دنوں میں سیکڑوں، ہزاروں افراد نے احتجاج میں حصہ لیا ہے اور فوجی تختہ پلٹ کی مخالفت میں مسلسل مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
آج سوچی کے وکیل نے کہا کہ انہیں مزید دو دن تک حراست میں رکھا جائے گا۔ کھین مونگ زاؤ نے مزید کہا کہ اس کے بعد بدھ کے روز دارالحکومت نیپیڈو کی ایک عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے ان پر مقدمہ چلایا جائے گا۔
بتا دیں کہ سوچی کی نظربندی 15 فروری کو ختم ہونے والی تھی۔
آنگ سان سوچی کے خلاف دائر کی گئی چارج شیٹ میں انتخابات میں دھاندلی کے علاوہ درآمد اور برآمد کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے اور غیر قانونی طریقے سے مواصلاتی آلہ رکھنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سوچی پر کورونا کی وبا کے دوران ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یکم فروری کو فوج کے تختہ پلٹ کی قیادت کرنے والے فوج کے جنرل من آنگ ہوئنگ نے ملک میں ایک سال کی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اس دوران سرکاری کام کاج دیکھنے کے لیے گیارہ ارکان پر مشتمل ایک فوجی حکومت تشکیل دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا میں مٹی کے تودے گرنے سے دو افراد ہلاک، 16 لاپتہ
فوج نے تختہ پلٹ کو یہ کہتے ہوئے جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے کہ گذشتہ سال ہوئے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ ان انتخابات میں آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بھاری اکثریت کے ساتھ جیت حاصل کی تھی۔
آج جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے والے افراد کو سات برس قید کی سزا ہوسکتی ہے، جبکہ عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے والے افراد کو تین برس تک قید ہوسکتی ہے۔
انٹرنیٹ کی بحالی کے چند گھنٹوں بعد یہ خبر آئی۔
گذشتہ روز بھی پورے ملک میں سیکڑوں، ہزاروں مظاہرین نے مسلسل نویں روز بھی فوج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ریلی نکالی۔
ریاست کاچن کے شہر میتکینا میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں فائرنگ کی آواز سنی گئی۔ یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ربڑ کی گولیاں تھیں ہا پھر کوئی اور طرح کی گولیاں جو فائر کی جارہی ہیں۔
گرفتار ہونے والوں میں پانچ صحافی بھی شامل تھے لیکن بعد میں انہیں رہا کردیا گیا۔
مظاہرین آنگ سان سوچی، صدر ون مائنٹ کے ساتھ ساتھ فاتح پارٹی این ایل ڈی کے تمام رہنماؤں کو جلد از جلد رہا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔