ایک غیر معمولی واقعہ میں نیپالی حکومت نے ملک کے نقشے میں کچھ تبدیلیاں لانے کے لئے پارلیمنٹ میں ایک آئینی ترمیمی بل پیش کیا۔ اس بل کے ذریعے نیپالی سرکار سرحد کے قریب واقع بعض بھارتی علاقوں کو اپنے ملک کے نقشے میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ دراصل بھارت اور نیپال کے درمیان سرحدی تنازعہ اُس وقت اُبھر کر سامنے آگیا، جب بھارت نے کیلاش مانسور یاتریوں کے لئے اُترا کھنڈ میں لیپو لیکھ پاس کے راستے سے تعمیر کی گئی ایک نئی سڑک کو کھولنے کا فیصلہ کیا۔
بنیادی طور پر یہ تنازعہ اُس وقت سے پیدا ہوگیا تھا، جب نئی دلی نے جموں کشمیر ریاست کی نئی تنظیم سازی کے بعد کالا پانی اور لپو لیکھ جیسے اُن علاقوں کو اپنے نقشے میں شامل کردیا، جنہیں نیپال اپنا حصہ تصور کرتا ہے۔ نیپال کا دعویٰ ہے کہ نئی دلی کا یہ اقدام سابق معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم نئی دلی نے نیپال کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے۔ اس کے بعد صورتحال اُس وقت مزید خراب ہوگئی جب بھارتی فوج کے سربراہ جنرل ناراوین نے چین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شاید کاٹھمنڈو کسی اور ملک کے کہنے پر اس مسئلے کو اُبھار رہا ہے۔
بھارت اور نیپال کے رشتے کو بعض مثبت وجوہات کی بنا پر اکثر ایک ’خصوصی‘ رشتہ قرار دیا جاتا ہے۔ سنہ 1950ء میں دونوں ملکوں کے درمیان طے پائے گئے امن اور دوستی کے معاہدے کی رو سے نیپالی شہریوں کو بھارت میں اُسی طرح سے کام کرنے کا موقعہ میسر ہے، جس طرح خود بھارت کے شہریوں کو اپنے ملک میں کام کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں بالکل کھلی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نیپالی شہری بھارتی فوج کا ایک حصہ (گورکھا ریجمنٹ) ہیں۔ بعض نیپالی فوجی ترقی کرتے ہوئے بھارتی فوج میں جنرل آفسیر رینک تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ اس طرح کی مثال دُنیا میں کسی بھی جگہ دو ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔
نیپال جغرافیائی لحاظ سے چین اور بھارت جیسے دو وشال ممالک کے بیچ میں واقع ہے۔ سال 2006ء کے بعد اس ملک نے بادشاہی نظام سے جمہوری نظام تک سفر کیا۔ نیپالی نظامِ حکومت کی اس تبدیلی میں بھی بھارت کے ساتھ اسکے بہتر تعلقات کام آگئے ۔ نیپال کی مخصوصی جغرافیائی صورتحال اور بھارت کے ساتھ لگنے والی اسکی 1750 کلو میٹر طویل سرحد کی وجہ سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کئی سطحوں پر مستحکم ہوچکے ہیں۔ نیپال، جہاں ماضی میں بادشاہی نظام تھا، بنیادی طور پر ایک ہندو ملک ہے۔ یہاں بُدھا بھی پیدا ہوا ہے۔ بھارت نے یہاں ماو نواز شورش سے نمٹنے اور نیپال کی نوازئیدہ جمہوری نظام کو پنپنے میں مدد دی اور اسکی وجہ سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان سماجی اور سیاسی رشتے مزید مستحکم ہوگئے۔ لیکن اس وقت چونکہ نیپال کمونسٹ پارٹی برسر اقتدار ہے، اسلئے کاٹھمنڈو کی سرکار سیاسی اور نظریاتی سطح پر بھارت کے مقابلے میں چین کے زیادہ قریب ہوگئی ہے۔
جنوبی ایشیا کی سیاسی اور جغرافیائی صورتحال کے حوالے یہ ایک اہم بات ہے کہ اس خطے کے کئی ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹا اور سری لنکا شامل ہیں، کی ایک دوسرے سے سرحدیں براہ راست نہیں ملتی ہیں بلکہ ان سب کی سرحدیں بھارت سے جاملتی ہیں۔ کئی ملکوں کے اس جھرمٹ کے سرحدی نظام میں بعض جگہوں پر چین کی سرحدیں بھی جا ملتی ہیں۔ اس سارے سرحدی خدو خال میں کئی سرحدی تنازعات ابھی بھی حل طلب ہیں۔
برطانوی راج کے اختتام پر اس خطے میں کئی آزاد مملکتوں کا وجود عمل میں آگیا تھا۔ چونکہ بھارت جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے، اس لئے چھوٹے پڑوسی اس سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ دوسری جانب فی الوقت بیجنگ جنوبی ایشیا کے اس خطے میں اپنا ایجنڈا عملا رہا ہے۔ تازہ تنازعہ کی جڑیں نیپال کی نو آبادیاتی دور سے جاملتی ہیں۔ در اصل 1816ء معاہدے کی رو سے کاٹھمنڈو لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمپیا دھورا علاقوں پر اپنا حق جتلاتا ہے۔ جبکہ بھارت بھی تاریخ کی روشنی میں ہی ان علاقوں پر اپنا حق جتلارہا ہے۔سنہ 1950ء ، 1962ء اور 2019ء کی آئینی کارروائیوں کے نتیجے میں بھارت کے موقف کی توثیق ہوجاتی ہے۔
چونکہ بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات میں پہلے سے ہی ایک تلخی ہے اور لائن آف ایکچیول کنٹرول ( ایل اے سی) پر بھی علاقائی تنازعہ اکتوبر 1962ء سے قائم ہے۔ اس کی وجہ سے فی الوقت دونوں ملکوں کی افواج ایل اے سی پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ کاٹھمنڈو اور بیجنگ کے درمیان موجودہ سیاسی تعلقات کے پیش نظر مودی سرکار سے یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ وہ نیپال کے ساتھ نقشے سے جڑا یہ مسئلہ نرمی سے حل کرتی۔
مانا جاتا ہے کہ نئی دلی نے لیپو پاس کے راستے سے نئی سڑک کھولنے کے معاملے پر کاٹھمنڈو کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 8 مئی کو اس 80 کلو میٹر طویل سڑک کا افتتاح کیا اور اس کے نتیجے میں نیپال میں بھارت مخالف طبقوں نے اس مسئلے کو اچھالا اور اسے نئی دلی کی من مانی سے تعبیر کیا گیا۔ نیپال کے اس دعوے کے پس پردہ جو بھی عوامل ہوں، بھارت کے لئے فی الوقت یہ ایک چیلنج ہے کہ چھوٹے ممالک کے ساتھ جب معاملات آسانی سے حل کئے جاسکتے ہیں تو انہیں خوا مخواہ بھڑکانے کے بجائے صلح آمیزی اور نرم روی سے کیسے حل کیا جائے۔
نیپال میں بھارت سے متعلق ملی جلی آرا پائی جاتی ہیں۔ راجیو گاندھی کے دور میں نیپال کا بلاکیڈ کرنے اور ماضی قریب میں جب نیپالی آئین سازی کی جاری تھی تو بھارت نے اس آئین میں اپنے مفاد کی شقیں شامل کرانے کی کوشش کی ۔ اس طرح کے واقعات نے نیپال میں یہ تاثر پیدا کیا کہ بھارت غنڈہ گردی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی دوطرفہ مسائل لٹکائے رکھے گئے اور نیپال کے مطابق بھارت نے ان مسائل کے حوالے سے اپنے وعدے پورے نہیں کئے۔ اس سب کی وجہ سے بھارت کے خلوص پر شکوک و شبہات پیدا ہوگیا ہے۔
دونوں ملکوں کے بندھن میں سب سے اہم کردار اُن نیپالی شہریوں کا ہے، جنہوں نے بھارتی فوج میں اپنی خدمات انجام دی ہیں اور دے رہے ہیں۔ فی الوقت بھارتی فوج میں سات گورکھا ریجمنٹس ہیں۔ ان کی افرادی قوت 35ہزار ہے جبکہ 90 ہزار سابق نیپالی فوجی پینشن لے رہے ہیں۔ یہ فوج دونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط بنانے رکھنے میں ایک بہت بڑی کڑی ہے۔ بھارت کے لئے کام کرنے والی نیپالی افرادی قوت بھارت کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ اس لئے اس معاملے کو احتیاط کے ساتھ حل کرنا ہوگا۔
نیپال کے ساتھ پیدا شدہ کشیدگی کے حوالے سے مودی سرکار کی پڑوسیوں سے متعلق پالیسی کا امتحان ہے۔ اگر نئی دلی نے اپنے چھوٹے پڑوسیوں کے ساتھ قابل بھروسہ ساتھی جیسا رویہ اختیار کیا اور اُن کے حساس معاملات کے تئیں ہمدردی کا مظاہرہ کیا تو بھارت کے پڑوس میں چین کا اثرو رسوخ خود بخود کم ہوگا۔
نئے نقشے سے متعلق بل نیپالی پارلیمنٹ جلد ہی پاس ہوگی۔ ایسے میں نئی دلی کےلئے یہ ایک چیلنج ہوگا کہ وہ اس معاملے کو صلح صفائی کے ساتھ کیسے حل کریں۔ نیپال کے ساتھ یہ خصوصی رشتہ خراب نہیں ہونے دینا ہے۔