افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے ہی چین ان چند ممالک میں سے ایک رہا ہے جو کھل کر طالبان کی حمایت میں کھڑا رہا ہے۔ گذشتہ روز چین ایک مرتبہ پھر افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے تعلق سے بات کہی ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجین نے بدھ کو ایک پریس بریفنگ میں کہا "افغانستان میں چین کا سفارت خانہ پہلے کی طرح کام کر رہا ہے اور ہم نئی حکومت کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے تیار ہیں۔
اس کے علاوہ اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر چینی وزارت خارجہ نے لکھا ہے کہ جیسا کہ افغان عوام نے مطالبہ کیا ہے، امریکہ کو کسی جواز کے بغیر افغانستان کے اثاثے منجمد نہیں کرنے چاہیے۔
انھوں نے مزید لکھا کہ امریکہ کو افغانستان کے جائز مطالبے کا سامنا کرنا چاہیے، دباؤ اور پابندیوں کو ترک کرنا چاہیے اور افغان معیشت، امن اور تعمیر نو کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنا بند کرنا چاہیے۔
اس سے قبل منگل کو طالبان نے اعلان کیا تھا کہ کابل میں چین کے سفیر نے نئی حکومت کے قیام پر افغانستان کو نیک خواہشات کا پیغام دیا ہے۔
- امریکی ڈرون حملے کے متاثرین کا امریکہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ
- افغانستان کے لیے مختص فنڈز عالمی برادری بحال کرے: پاکستانی وزیر خارجہ
واضح رہے کہ اگست کے مہینے میں طالبان نے افغان حکومت کی سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی کاروائی تیز کرکے 15 اگست کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔
امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل 31 اگست کو مکمل ہوا۔ اس انخلا کے ساتھ ہی امریکی فوج کی افغانستان میں تقریبا 20 سالوں سے موجودگی ختم ہو گئی۔
طالبان نے 6 ستمبر کو افغانستان میں پنجشیر پر قبضہ کرنے کا بھی دعویٰ کرچکی ہے۔
اس کے بعد طالبان نے محمد حسن اخوند کی قیادت میں افغانستان کی عبوری حکومت کا اعلان کیا۔ تاہم عالمی برادری اب تک افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات رکھنے میں تذبذب کا شکار ہے۔