چین کے صوبہ سنکیانگ میں رہنے والے ایغور مسلمانوں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے اس برادری کی خواتین کی نسبندی کرانے یا انھیں مانع حمل آلات کے استعمال پر مجبور کرنے جیسے اقدامات کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد چین نے ایک بار پھر ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ شمال مغربی چین کے صوبہ سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی، ایغور مسلمان خواتین کی جبری نسبندی کے سبب ہوئی ہے۔
تاہم چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ چینی حکومت نے ایغور مسلمان خواتین کو 'بچے پیدا کرنے والی مشین' بننے سے آزاد کروایا ہے اور ان خواتین کو پیدائش پر قابو پانے کے اقدامات مکمل طور پر ان کی رضاکارانہ اور آزادانہ مرضی پر چھوڑا گیا ہے۔
یہ معاملہ ایک تحقیقات کے بعد سامنے آیا جب مسلمان خواتین کو مانع حمل اور اسقاط حمل و نسبندی جیسے پیدائش پر قابو پانے کے اقدامات کرنے پر مجبور کرنے کی رپورٹ سامنے آئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اگر دو سے زیادہ بچے کوئی پیدا کرتا ہے تو اس کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور ایسا نہیں کیا تو اس کو حراستی کیمپوں میں ڈال دیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ جرمانہ ادا نہیں کرتی ہیں تو پھر انہیں ان کے شوہر کے ساتھ کیمپ میں ڈال دیا جائے گا۔
چین میں کئی دہائیوں سے ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسی رہی ہے لیکن شہری اقلیتوں کو دو بچوں اور دیہی علاقوں میں تین بچے پیدا کرنے اجازت دی گئی ہے۔
سنہ 2017 میں پالیسی میں تبدیلی کے ذریعے اس فرق کو ختم کر دیا گیا اور چینی شہریوں کو بھی اقلیتوں کے برابر بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق اقلیتی طبقات کو جس طرح اسقاط حمل، نسبندی اور آئی یو ڈی جیسے اقدامات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس طرح وہاں چینی شہریوں کو نہیں گزرنا ہوتا ہے۔
اس کی وجہ سے صوبہ سنکیانگ کے اقلیتی علاقوں میں تین برسوں میں شرح پیدائش میں 60 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔
چین نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ بیجنگ نے علاقے کے اقلیتی طبقات کو روزگار کے زیادہ مواقع اور بہتر طرز زندگی دینے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی سطح پر کورونا وائرس متاثرین کی تعداد 9 کروڑ سے تجاوز
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ تقریبا دس لاکھ ایغور مسلمان اور دوسرے لوگوں کو جن میں زیادہ تر مسلمان اقلیت شامل ہیں، حراست میں لیا گیا ہے۔ چینی حکومت اس کو 'ری ایجوکیشن کیمپ' کہتی ہے۔
اس سے قبل چین نے ایسے کسی بھی کیمپ کی موجودگی سے انکار کیا تھا لیکن بعد میں یہ کہہ کر اس کا دفاع کیا کہ یہ انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے ضروری اقدام تھا۔
حالیہ چند برسوں میں ایغور مسلمانوں کے متعلق چین کا جو رویہ رہا ہے اس بارے بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوتی رہی ہے۔